کہنا بھی جائز نہیں، کیوں کہ احادیث وحی کی ایک قسم ہے، اگر کسی بھی صحیح حدیث کا انکار کردیا تو وحی کا انکار لازم آئے گا، اگر پوری محنت اور ہر ممکن سعی کے بعد کسی روایت کو موضوع کہا جب کہ وہ موضوع نہیں تھی تو یہ غلطی ان شاء اللہ معاف ہے، لیکن سرسری نظر کے بعد اس کی صحت کا انکار کردیا تو یقینا بہت بڑا جرم اور سنگین گناہ کا ارتکاب ہوگا، ایک حدیث مبارکہ کے الفاظ ہیں :
عن ابی بکرؓ مرفوعًا من کذب علیّ متعمّدًا او ردّ شیئًا امرتُ بہ فلْیتبوّأ بیتاً فی جھنّم۔(الاسرار ۴۴)
’’حضرت ابو بکر صدیق صحضور اقدس ا کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جس نے مجھ پر جھوٹ باندھا یا میری بتائی ہوئی بات کو رد کردیا تو وہ جہنم میں اپنا گھر بنالے‘‘۔
اس وعید سے بچنے کے لئے احتیاط کا دامن پکڑنا ضروری ہے ، پوری تحقیق کئے بغیر ، علماء اور محدثین کے اقوال اورمعتبر کتب احادیث کی طرف مراجعت کئے بغیر کسی حدیث کو موضوع کہناجرم عظیم کی طرف قدم بڑھانا ہے ۔
احتیاط کا ایک پہلو
کسی روایت کو موضوع کہنے میںاحتیاط کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ درایت پر زور دے کر کسی حدیث کو موضوع نہیں کہہ دینا چاہئے، یہ ہرگز درست نہیں ہے ، یہ بات اپنی جگہ بالکل ٹھیک ہے کہ حدیث کی وضع کا فیصلہ درایت سے بھی کیا جاتا ہے ، لیکن اس درایت کا ایک معیار ہے ، جہاں تک ہر کس و ناکس کی رسائی ممکن نہیں ، اگر ہر ایک کی درایت کا اعتبار کیا