اس کو کسی آدمی کے دروازے پر (بلانے کے واسطے) بھیجا کرتے وہ دروازے کے پاس آکر سر سے دروازہ کھٹکھٹاتا، جب گھر کا مالک باہر آتا تو اشارہ کرتا کہ رسول اللہ اکے پاس چلئے، جب رسول اللہا کا انتقال ہوگیا تو بیقراری میں ابو الہیثم بن التیہان کے کنویں میں گر پڑا۔
تحقیق : ابن جوزی ؒنے اس کو موضوع کہا ہے، اور علامہ سیوطی ؒاور ابن عراقؒ نے ان سے اتفاق کیا ہے ، اور ابن حبان ؒنے کہا ہے کہ اس کی کوئی اصل نہیں ہے ، اور حافظ ذہبی ؒ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے ان سے اتفاق کیا ہے، ابن جوزی نے لکھاہے کہ: یہ حدیث موضوع ہے ، اللہ تعالی کی لعنت ہو اس حدیث کے گھڑنے والے پر ، اس کا مقصد اسلام میں عیب پیدا کرنے اور اس سے مذاق اڑانے کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے انتھی۔(اللآلی المصنوعۃ ۱؍۲۷۶؍؍ تنزیہ الشریعۃ ۱؍۳۲۶؍؍ السلسلۃ ج۱۱ رقم الحدیث ۵۴۰۵)
اے وائے غفلت! اتنی گری پڑی روایت کے بھی قدرداں واعظ پیدا ہوئے ہیں ، واللہ میرے اور سارے جہاں کے سردار آقائے مدنی ا کا ظاہری و باطنی حسن ان بیہودہ روایات سے بے نیاز ہے۔
حضور ﷺکا سایہ
٭انّ رسول اللہ ﷺ لم یکن یری لہ ظلٌّ فی شمسٍ و لا قمرٍ۔
رسول اللہ ا کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھانہ دھوپ میں نہ چاندنی میں۔