’’بلا شبہ اللہ تعالی نے کذابوں کے خلاف ہماری مدد فرمائی ہے نسیان کے ذریعہ ‘‘
الغرض حدیث کی حفاظت کا وعدہ اللہ نے پورا فرمایا ، اور اس کمال سے فرمایا کہ آج صدیوں کے بعد بھی سرکار دو عالم اکی احادیث مبارکہ کا ذخیرہ پوری جامعیت کے ساتھ اپنی اصلی اور صحیح صورت میں ہمارے سامنے اس طرح موجود ہے کہ گویا خودہمارے نبی ا ہمارے سامنے جلوہ فرما ہیں ۔
علماء کی توجہ
موضوعات کا خاتمہ کرنے اور صحیح احادیث کو محفوظ کرنے کے لئے علماء نے اپنی پوری توجہ سے کام لیا،اور اپنی زندگیاںاحادیث کی خدمت میں قربان کردیں ، ایک طرف صحیح احادیث کا ذخیرہ سینوں اور سفینوں میں محفوظ کرلیا، اور دوسری طرف موضوع احادیث سے بچنے کا بھی اہتمام کیا ، اور موضوعات کے سامنے پہاڑ بن کر کھڑے ہوگئے، اور ان کی ترویج کا دروازہ بند کردیا ، پس موضوعات وجود میں تو آئیں لیکن ان کو قبولیت ملنے اور رواج پانے کا موقع نہیں ملا، محدثین نے ایک ایک موضوع حدیث کو چن چن کر باہر نکال پھینکا ، چنانچہ ہارون رشید کے پاس ایک زندیق کو لایا گیا ، خلیفہ نے اس کو قتل کرنے حکم دیا تو اس نے کہا کہ اے امیر المومنین ! ان چار ہزار احادیث کا کیا ہوگا جن کو میں نے تمہارے دین کے متعلق وضع کیا ہے ، جن میں میں نے حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دیا ہے ، ان میں ایک بات بھی رسول اللہا کی کہی ہوئی نہیں ہے ، تو ہارون رشید نے جواب دیا کہ اے زندیق ! تیری حدیثیں عبد اللہ بن مبارکؒ اور ابواسحاق الفزاریؒ کے ہوتے ہوئے کیسے چل سکتی ہیں ، وہ