سے سنی ہوئی روایات کو بیان کرے، باقی غیر محتاط اور غیر معروف واعظوں سے سن کر اسے روایت کرنے سے پر ہیز کیا جائے جب تک کہ اس کی تحقیق نہ ہوجائے، پہلے تحقیق کی جائے پھر اسے بیان کیا جائے، تحقیق سے پہلے ایسا خیال کیا جائے کہ اس مضمون کی کوئی حدیث میرے پاس نہیں ہے، وعظ کی کرسیوں پر اس کے برعکس معاملہ نظر آتا ہے، کہیں چلتے چلتے کوئی حدیث کانوں میں پڑ گئی، کچھ بوسیدہ کاغذوں میں کوئی روایت نظروں سے گزر گئی معلوم نہیں کونسی کتاب ہے کون مصنف ہے، کسی محفل میں تھے کہ کسی نامعلوم مقرر کی کوئی روایت دوست کے موبائیل میں سن لی اب یہ ساری روایات کرسی پر بیٹھتے ہی یاد آجائیںگی، اور روایات کا سلسلہ جاری ہوجائے گا، یہ طرز ہرگز پسندیدہ نہیں ہے اور نہ اس میں تساہل کی گنجائش ہے۔
نیز جو روایت پختہ یاد ہو اسے ہی بیان کیا جائے، بہت پہلی کی پڑھی ہوئی روایت جو کچھ یاد ہے کچھ حصہ ذہن سے نکل گیا، یا کوئی روایت اچھی طرح یاد نہیں ہے، ان کو بیان کرنے سے پرہیز کیا جائے۔
محدث کبیر حضرت مفتی سعید احمد صاحب دامت برکاتہم ’’رحمۃ اللہ الواسعہ‘‘ میں شاہ صاحب کی عبارت کی تشریح کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :
حدیث میں کذب بیانی کبیرہ گناہ ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ بعد کی صدیوں تک دین کے پہنچنے کی راہ بس روایت ہی ہے پس اگر روایات میں فساد در آئے گا تو دین کیسے محفوظ رہے گا ؟ اس لئے روایت حدیث میں غایت درجہ احتیاط ضروری ہے ، اور احتیاط کی دو صورتیں ہیں (۱)راوی خود روایت حدیث میں بے احتیاطی نہ برتے ، پورے تیقظ کے ساتھ روایت بیان کرے (۲) برخود غلط قسم کے لوگوں