دوسری صورت یہ ہے کہ ان میں سے ایک کو ترجیح دی جائے،حافظ صلاح الدین العلائی فرماتے ہیں:
فمتی وجدنا فی کلام احد من المتقدمین الحکم بہ کان متعمدا وان اختلف النقل عنھم عدل الی الترجیح۔
( ظفر الامانی للکنوی۴۸۳)
’’پس جب متقدمین میں سے کسی نے کسی حدیث کے موضوع ہونے کا حکم لگایا تو اسی پر اعتماد ہوگا اور اگر کسی حدیث کے متعلق متقدمین کا اختلاف منقول ہو تو کسی ایک کو ترجیح دینے کی طرف توجہ کی جائے گی‘‘۔
کسی ایک کو ترجیح دینے کے لئے عالم (جو ترجیح دینے پر قادر ہو) علم اصول حدیث اور اسماء الرجال سے فائدہ اٹھائے گا ، اور جاہل یا وہ شخص جو مآخذ عربیہ سے استفادہ پر قادر نہیں ہے تو وہ ایسے عالم سے رجوع کرے گاجن کو وہ قابل اور با صلاحیت سمجھتا ہے ، جن کے علم و تقوی پر اس کو اعتماد ہو ۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ دنیوی امور میںجب اختلاف ہوتا ہے ، اور کسی اہم معاملہ میں دو رائیں ہو جاتی ہیں تو اس وقت ہم لوگ نہ سہولت والی رائے تلاش کرتے ہیں ، اور نہ اختلاف کرنے والوں سے بدظن ہوتے ہیں ، بلکہ حق کو پانے کی کوشش کرتے ہیں ، مثلا دو وکیلوں میں کسی مقدمے کی کوئی خاص بات میں اختلاف ہوجائے ایک اس کو سبب گرفت بتلا رہا ہے ، دوسرا اس میں کچھ خطرہ محسوس نہیں کرتا ، اس صورت میں جس کا مقدمہ ہے وہ یہ نہیں سوچے گا کہ جس رائے میں سہولت ہو یا جو میری مرضی کے موافق ہو اس کو اختیار کیا جائے ،