دیکھئے جو زندگی کا رخ موڑ سکتی ہے۔
آج کل موبائیل کے ذریعہ ایک دوسرے پر کسی طرح کا پیغام پہنچانا بہت ہی آسان ہوگیا،بعض لوگوں نے اس سہولت سے غلط فائدہ اٹھاکر ہر طرح کی احادیث ایک دوسرے کو ارسال کرنا شروع کردیا، جن میں کچھ تو صحیح ہوتی ہیں لیکن ان میں موضوع اور بے اصل روایات کی بھی کمی نہیں ہوتی، اس لئے ان پر اعتماد ہرگز نہ کیا جائے، حتی کہ اگر کسی معتبر کتاب کا حوالہ ہو تب بھی اصل کتاب میں دیکھے بغیر اس کو صحیح تسلیم نہ کیا جائے، کیوں کہ ایک روایت کی تحقیق کرنے سے معلوم ہواکہ موضوع روایت پر بخاری کے حوالے ظالموں نے دئیے ہیں۔
غیر معروف مقرر کے بیانات سننے میں سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ کہیں راہ حق سے دورنہ کردے، کبھی کسی بد باطن کا ایک کلمہ سننے والے کو شکوک و شبہات کے بیابان میں دھکیل دیتا ہے، فتنوں کے عروج کے اس دور میں اپنے دل و دماغ میں آنے کے لئے کانوں کا راستہ ہر کسی کے لئے کھول دینا بہت بڑی نادانی ہے۔
بے اصل روایات غیر معتبر ہیں
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی کتاب میں کوئی حدیث موجود ہوتی ہے اس کے ساتھ نہ سند ہوتی ہے اور نہ کسی معتبر کتابوں کا حوالہ ہو تا ہے، ایسی حدیث غیر معتبر اور ناقابل قبول ہے، ایسی حدیث بھی بیان نہیں کی جائے گی،علامہ محمد بن طاہر پٹنی ؒ ’’تذکرۃ الموضوعات‘‘ میں لکھتے ہیں :