آگاہ کرنا ضروری ہے ، اور اس میں ان کی بے ادبی اور گستاخی سمجھنا درست نہیںہے ، اگر بالمشافہ بات کرنے کی ہمت نہیں ہوتی اور ان کی بے ادبی کا خیال آتا ہے تو خط کے ذریعہ ان کو مطلع کیا جائے۔
اگر ہمیں کسی روایت کا موضوع ہونا مستند حوالے سے معلوم ہے ، پھر اس کو کوئی ایسے مقرر یا واعظ بیان کررہے ہیں جن کے علم و آگہی کا سکہ ہمارے قلب پر جما ہوا ہے تو اس وقت یہ تصور کرکے کہ ان کے پاس اس کا کوئی حوالہ ہوگا یا وہ ہم سے زیادہ واقف ہیں ان کو اپنی معلومات سے مطلع نہ کرنا بھی غلط ہے، کیوں کہ ان کے وسیع علم کے ہوتے ہوئے اس بات کا بھی امکان ہے کہ یہ بات ان کے علم میں نہ آئی ہو، اور اگر ان کے پاس کوئی دوسری تحقیق ہے تو ہمارا فائدہ ہوجائے گا۔
کسی واعظ کی بیان کردہ موضوع روایت پرمطلع کرنا غیبت نہیں ہے، بلکہ دین کے لئے ایک حقیقت سے پردہ اٹھانا ضروری ہوتا ہے، اس دینی فریضے کی ادائیگی میں کوئی گناہ سر نہیں آئے گا، پس غیبت کا احساس بھی اس نہی عن المنکر سے مانع نہیں ہونا چاہئے۔
نمونہ ٔ اسلاف
سلف کی عادت یہ تھی کہ اگر کسی جگہ موضوع روایت بیان ہورہی ہے تو اس کو روکنا اپنا فرض سمجھتے تھے، اور اگر کہنے کا موقع مل گیا تو اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے ، اور حدیث کی نصرت میں کسی کی پرواہ نہیں کرتے تھے،ان کے چند نمونے حاضر ہیں:
حضرت ابو بکر بن خلاد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت یحییٰ بن سعید القطان سے پوچھا