اسی طرح ایک محدث نے دو حدیثوں کو محض اس لئے موضوع کہہ دیا کہ ان کے گمان میں وہ حدیثیں صحیح احادیث سے ٹکراتی تھی ، اس پر علامہ ذہبی ؒ نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ محض آپ کی بیان کردہ وجوہ کی بنا پر حدیث کو موضوع کہہ دینا محل نظر ہے۔
(فتح الملھم ۱/۱۶۲)
درایت کی بنیاد پر کسی روایت کو موضوع کہنا آج کے آزادی پسند ماحول میں عام ہوتا جارہا ہے ، بس جہاں بھی ذرا الجھن ہوئی بیک جنبش قلم اس کے موضوع ہونے کا فیصلہ کر دیا، یہ رویہ بالکل درست نہیں ہے، ضروری نہیں کہ جو روایت ہماری سمجھ سے باہر ہو یا جو ہمارے گمان میں کسی صحیح روایت سے ٹکراتی ہو وہ حقیقت میں بھی فاسد المعنی ہو،بلکہ ممکن ہے کہ ہمارے فہم کی غلطی ہو ، اور کوئی دوسرا اس کا ایسا مفہوم واضح کردے کہ سارے خلجان کافور ہوجائیں۔
احتیاط کا دوسراپہلو
اسی طرح اردو میں مضامین لکھنے کے دوران یا کسی اور ضرورت سے کسی حدیث کی تحقیق کی ضرورت پیش آجائے تو صرف ایک کتاب پر اعتماد نہ کیا جائے ، ضروری نہیں کہ ایک کتاب میں کسی عالم یا محدث نے ایک حدیث کو موضوع کہہ دیا تو سارے علماء ان سے متفق ہوں، اختلاف ممکن ہے ، اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ دوسرا فریق واضح حق پر ہو ، پس کسی ایک کتاب میں وضع کا فیصلہ پاکر اپنے مضمون میں یا اپنی کتاب میں اس کو موضوع لکھ دینا مناسب نہیں ہے ، عجیب بات تو یہ ہے کہ کبھی کسی متشدد عالم سے موضوع ہونے کا قول اس