کی۔ (الاسرار المرفوعۃ)
حضرت عبد اللہ بن مبارک ؒ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سفیان ثوری ؒ سے کہا کہ عباد بن کثیر کا حال تو آپ جانتے ہیں (کہ وہ عبادت اور صلاح و تقوی کے اعتبار سے ایک اچھا انسان ہے) لیکن جب کوئی روایت بیان کرتا ہے تو کوئی بھاری بات لے کر آتا ہے، کیا آپ مناسب سمجھتے ہیں کہ میں لوگوں سے کہہ دوں کہ اس سے روایت مت لینا، حضرت سفیان ؒ نے کہا کہ ہاں کہہ دو، حضرت عبد اللہ ؒ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد کسی بھی مجلس میں میری حاضری میں عباد کا تذکرہ ہوتا تو میں اس کے دینداری کی تعریف کرتا اور کہتا کہ اس سے حدیث مت لینا۔ (فتح الملھم)
یہ تو چند مثالیں ہیں ورنہ ان مثالوں سے فن اسماء الرجال کی کتابیں بھری ہوئی ہیں، آج اگر ہمارے یہ اسلاف ہوتے یا ہم اپنے اسی رویہ کے ساتھ ان کے زمانے میں ہوتے تو یقینا ہمارے متعلق تضعیف و جرح کے الفاظ محفوظ ہوتے، کسی نے کہا ہوتا کہ وہ ضعیف ہے، کسی نے کہا ہوتا کہ ہر کسی سے روایت لے لیتا ہے، کسی نے کہا ہوتا کہ غفلت کا غلبہ ہے۔
عجیب واقعہ
اما احمد بن حنبل اور یحیی بن معین ؒ نے کسی ایک مسجد میں نماز پڑھی ، نماز کے بعد ایک واعظ کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا کہ امام احمد بن حنبل ؒ اور یحیی بن معین ؒ نے مجھے یہ حدیث بیان کی ہے اس کے بعد ایک روایت (جو من گھڑت روایت تھی) بیان کی ، پس دونوں امام ایک دوسرے کو تعجب سے دیکھنے لگے ، اور ایک نے دوسرے سے معلوم کیا کہ تم نے یہ روایت بیان