موضوع حدیث تعدد طرق سے بھی قوی نہیں ہوگی
اگر ایک موضوع حدیث کی تائید اسی جیسی موضوع حدیث سے ہو تو اس کو قوت نہیں ملے گی ، بلکہ اگر ایک ہی مضمون کی چند موضوع احادیث جمع ہو جائیں تب بھی ان پر اعتماد نہیں کیا جائے گا ، اور ان پر عمل جائز نہیں ہوگا ، حضرت مفتی رشید صاحبؒ فرماتے ہیں کہ ان جیسے راویوں کا عدد ہزار بھی ہو جائے تو بھی ان پر اعتماد جائز نہیں الخبیث لا یزید الا خبثا۔
(احسن الفتاوی ۱۰؍۱۲۵)
علامہ ابن عابدین شامی ؒ لکھتے ہیں :
امّا لو کان لفسق الرّاوی او کذبہ فلا یؤثّر فیہ موافقۃ مثلہ لہ۔
(رد المحتار۱؍ ۲۲۶)
’’یعنی اگر کمزوری راوی کے فسق یا جھوٹ کی وجہ سے ہے تو اسی جیسے دوسرے راوی کی موافقت اس کی تقویت میں اثر انداز نہیں ہوگی‘‘۔
موضوع روایت کو آپ ا کی طرف منسوب کئے بغیر بیان کرنا
موضوع حدیث کو رسول اللہ ا کی طرف منسوب کرکے بیان کرنا اور اس کو حدیث کہہ کر بیان کرنا جائز نہیں ہے ، لیکن اگر کوئی موضوع روایت کا معنی صحیح ہو ، اورکسی نص شرعی کے خلاف نہ ہو تو اس کو حدیث کہے بغیر بیان کرنا صحیح ہے، علامہ محمد بن طاہر پٹنی ؒلکھتے ہیں :
قال الصغانی اذا علم ان حدیثا متروک او موضوع فلیروہ ولکن لا یقول علیہ قال رسول اللہ ﷺ۔( تذکرۃ الموضوعات للفتنیؒ ۸)
صغانی ؒ نے کہا ہے کہ جب کسی حدیث کا متروک یا موضوع ہونا معلوم ہوجائےتو