محدثین کا معمول
محدثین عظام ؒ بھی صحابہ کرام ؓ کے نقش قدم پر نظر آرہے ہیں، وہ بھی ہر آنے جانے والے سے روایت لینا پسند نہیں کرتے تھے بلکہ اس میں اہلیت دیکھتے تھے،امام مالکؒ کا قول پہلے گزر چکا ہے کہ
’’سارے لوگ ایسے نہیں ہوتے کہ ان سے رسول اللہ ﷺ کی حدیث لی جائے، اگر چہ وہ اپنی ذات میں دینداری کے حساب سے خوبی کے مالک ہو، کیوں کہ یہ تو اللہ کے بھیجے ہوئے ایک قاصد کی دی ہوئی خبریں ہیں، جو انہیں لوگوں سے لی جائیں گی جو اس کے اہل ہوں‘‘۔
چنانچہ وہ اپنا حال بیان کرتے ہیں کہ یہ علم دین ہے پس تم دیکھو کہ تم اپنا دین کس سے لے رہے ہو، پھر فرمایا :
لقد ادرکت سبعین ممن یقول (قال رسول اللہ ﷺ) عند ھذہ الاساطین فما اخذت عنھم وان احدھم لو اؤتمن علی بیت مال لکان بہ امینا لانھم لم یکونوا من اھل ھذا الشان۔
(فتح الملھم ۳۴۹)
’’یقینا میں نے ان ستونوں کے پاس ’’قال رسول اللہ ﷺ‘‘ کہہ کر حدیث بیان کرنے والے ستر لوگوں کو پایا ہے، لیکن میں نے ان سے حدیث نہیں لی، حالانکہ ان کی امانت داری اور دیانت داری کا یہ عالم تھا کہ اگر ان میں سے کسی کو بیت المال کا ذمہ دار بنایا جاتا تو وہ اس کے لئے امانت دار ثابت ہوتا، لیکن علم حدیث کے اہل نہ ہونے کی وجہ سے ان