اس کو روایت کر سکتے ہیں لیکن یہ کہے بغیر کہ’’رسول اللہ ﷺنے فرمایا ہے‘‘۔
لیکن یہ بات ضروری ہے وہ حدیث شریعت کے عام اصول کے ماتحت آتی ہواور اسی عام مضمون کو ایسے خاص انداز میں بیان کیا گیا ہو کہ سننے والے کے دل پر وہ مضمون پیوست ہوجائے تو رسول اللہ ا کی طرف منسوب کئے بغیر اس کو بیان کرنا صحیح ہے مثلا الصلاۃ معراج المومنیننماز مومنین کی معراج ہے ، یہ حدیث نہیں ہے لیکن اس میں کوئی نیا مضمون بھی نہیں ہے بلکہ نماز کی خاص حضوری اور روحانی ترقی کو معراج کہا گیا ہے ، اس لئے اس کو حدیث کہے بغیر بیان کرنا درست ہے ۔
صحابی کا قول
جس طرح امت نے رسول اللہ ﷺ کے اقوال محفوظ کئے ہیں اسی طرح صحابہ کے اقوال بھی محفوظ کئے ہیں،رسول اللہ ﷺ کے فرمان کو حدیث مرفوع اور صحابی کے قول کو حدیث موقوف کہتے ہیں، اور امت صحابہ کے اقوال سے بھی استفادہ کرتی ہے، لیکن دونوں میں بہت بڑا فرق ہے، رسول اللہ ﷺ کے ارشادات وحی ہے، اور صحابہ کے اقوال کو وہ درجہ حاصل نہیں(البتہ صحابہ کے وہ اقوال جن کا دار ومدار عقل و قیاس پر نہ ہووہ بھی حدیث مرفوع کے حکم میں ہیں) اس لئے دونوں میں امتیاز باقی رکھنا ضروری ہے، یہی وجہ ہے جب کسی صحابی کے قول کو بھول سے رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کردیا جاتا ہے تو علماء اس کو موضوع کہتے ہیں، ابن عراق ؒ لکھتے ہیں
قوم وقع الموضوع فی حدیثھم ولم یتعمد الوضع کمن یغلط