کی ہے لیکن ہر ایک نے کہا کہ یہ روایت تو میں نے آج سے پہلے کبھی نہیں سنی، جب وہ اپنے وعظ سے فارغ ہوا تو لوگوںسے ہدایا حاصل کئے اور مزید حاصل کرنے کی امیدمیں بیٹھا تھا ، حضرت یحیی بن معینؒ نے اس کو ہاتھ سے اشارہ کرکے بلایا ، وہ یہ خیال کرکے آگیا کہ کوئی ہدیہ ملے گا، جب آیا تو حضرت ابن معینؒ نے اس سے پوچھا کہ یہ روایت تجھے کس نے بیان کی ، اس نے جواب دیا کہ احمد ابن حنبل اور یحیی بن معین نے، تو ابن معین ؒ نے فرمایا کہ میں یحیی بن معین ہوں اور یہ احمد بن حنبل ہیں، یہ حدیث تو ہم نے کبھی نہیں سنی، پس اگر تجھے جھوٹ بولنا تھا تو کسی اور پر بولتا، اس واعظ نے کہا کہ تم یحیی بن معین ہو؟ آپ نے جواب دیا: جی ہاں! اس واعظ نے کہا کہ میں سنا کرتا تھا کہ یحیی بن معین بے وقوف ہے آج مجھے اس کا یقین ہوگیا، آپؒ نے فرمایا کہ کیسے معلوم ہوا کہ میں احمق ہوں؟ اس واعظ نے کہا کیوں کہ تمہاری بات سے لگتا ہے گویا تمہارے علاوہ دنیا میں کوئی یحیی بن معین اور احمد بن حنبل ہے ہی نہیں، میں نے سترہ احمد بن حنبل اور یحیی بن معین سے حدیثیں لکھی ہیں، اس پر امام احمد ؒ نے اپنی آستین سے اپنا چہرہ چھپا دیا اور کہا کہ اسے جانے دو، وہ واعظ وہاں سے ان دونوں کو نظر حقارت سے دیکھتا ہوا چلا گیا۔
اصلاح و تنقید کا استقبال کیجئے
اگر ہم کوئی موضوع حدیث کو بیان کر رہے تھے ، اور جاننے والا ہم کو غلطی پر مطلع کررہا ہے تو ہمارا یہ بھی فرض بنتا ہے کہ اس کی بات کی طرف توجہ دے، پھر اگر اس کی تنقید میں صحت و سچائی کے آثار دکھے ، اور بتانے والا اس کی صحیح دلیل بھی دیتاہو یا معتبر حوالہ دیتا ہو تو اس کو تسلیم کرلینا چاہئے،قرآن ایسے لوگوں کی تعریف میں کہتا ہے: