ھی اخبار رسول اللہ ﷺ ، فلا تؤخذ الا من اھلھا۔
(فتح الملھم ۳۴۹)
’’سارے لوگ ایسے نہیں ہوتے کہ ان سے رسول اللہ ﷺ کی حدیث لی جائے، اگر چہ وہ اپنی ذات میں دینداری کے حساب سے خوبی کے مالک ہو، کیوں کہ یہ تو اللہ کے ایک نبی یعنی اللہ کے بھیجے ہوئے ایک قاصد کی دی ہوئی خبریں ہیں، جو انہیں لوگوں سے لی جائیں گی جو اس کے اہل ہوں۔
امام مالک ؒ ہی کا فرمان ہے کہ:
چار قسم کے لوگوں سے روایت نہیں لی جائے گی، بے وقوف سے، بدعتی سے جو بدعت کا داعی ہو، اور جو لوگوں کے معاملات میں جھوٹ بولتا ہو اگر چہ حدیث میں جھوٹ نہ بولا ہو، اور ایسے صاحب فضل اور صالح بزرگ سے جو بغیر سوچے سمجھے بولتا ہو۔
پس جہاں واعظ اور مقرر پر احتیاط ضروری ہے وہیں سامعین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی سے حدیث لینے میں احتیاط رکھیں، ہر کس وناکس سے کسی بات کو حدیث کے عنوان سے حاصل کرلینا مناسب نہیں ہے۔
صحابہؓ کا معمول
صحابہ ٔ کرام جس طرح احادیث بیان کرنے محتاط تھے اسی طرح احادیث قبول کرنے کے معاملے میں محتاط تھے، وہ سنی ہوئی روایت کو اٹھالینے والے نہیں تھے، بلکہ اس میں