حدیثوں کی تخریج کے دوران یہ لکھ دیا لم اجدہ (مجھے یہ حدیث نہیں ملی) جیسا کہ احیاء العلوم کی بہت سی احادیث کا حال ہے ، اس صورت میں اس حدیث کا اعتبار نہیں ہوگا بلکہ اس کو موضوع شمار کیا جائے گا،ابن عراق ؒ تحریر فرماتے ہیں کہ:
فاستفدنا من ھذا ان الحفاظ الذین ذکرھم و اضرابھم اذا قال احدھم فی حدیث لا اعرفہ او لا اصل لہ کفی ذلک فی الحکم علیہ بالوضع۔ (تنزیہ الشریعۃ ۱؍۸)
’’ اس سے یہ بات مستفاد ہوئی کہ اوپر مذکو ر حفاظ حدیث یا ان کے جیسے دوسرے حفاظ حدیث جب کسی حدیث کے بارے میں کہیں کہ ’’میں اسے نہیں جانتا‘‘ یا ’’اس کی کوئی اصل نہیں ہے‘‘ تو یہ بات حدیث کو موضوع کہنے کے لئے کافی ہے‘‘ ۔
جو روایت کتب متقدمین میں نہ ہو
اسی طرح علماء نے صراحت کی ہے کہ جو حدیث متقدمین کی کتابوں میں نہ ملے اس پر موضوع ہونے کا حکم لگایا جائے گا، ابن عراق ؒ امام فخر الدین رازیؒ سے نقل کرتے ہیں کہ :
ومنھاما ذکرہ الامام فخر الدین الرازی ان یروی الخبر فی زمن قد استقرأت فیہ الاخبار و دونت فیفتش عنہ فلا یوجد فی صدور الرجال ولا فی بطون الکتب۔( تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ۱؍۷)
’’اور موضوع احادیث کی علامتوں میں یہ بھی ہے کہ کوئی حدیث ایسے زمانے میں بیان کی جائے جب کہ احادیث کی چھان بین اور تتبع کے بعد ان کومدون کردیا گیا ہو ، پس