ناقل کا اعتبار نہیں ہوگا
اس وضاحت سے معلوم ہو گیا کہ متأخرین علماء میں سے کسی کی کتاب میں کوئی حدیث بغیر سند اور بغیر حوالے کے مذکور ہو یا کسی عالم نے بیان میں کوئی حدیث سنائی ہواور وہ حدیث احادیث کی مستند کتابوں میں سے کسی کتاب میں نہ ملے تو محض کسی عالم کا اپنی کتاب میں لکھنا یا اس کو بیان کرنا اس حدیث کے لئے کوئی اصل اور بنیاد شمار نہیں ہوگا ، محض ناقل کی دینداری کو دیکھ کر روایت کو قبول نہیں کیا جائے گا، چاہے حدیث بیان کرنے والا یا حدیث کو اپنی کتاب میں داخل کرنے والا کتنا ہی بڑا عالم کیوں نہ ہو ، علامہ سیوطیؒ فرماتے ہیں :
فالعمدۃ علی الکتب المدونۃ فمن جاء بحدیث غیر موجود فیھا فھو رد علیہ وان کان من اتقی المتقین۔
(الفوائد الموضوعۃ للکرمی ۶۹)
’’پس اعتماد حدیث کی مدونہ کتابوں پر کیا جائے گا ، چنانچہ اگر کوئی ایسی حدیث پیش کرے جو ان کتابوں میں نہ ہو تو اس کو رد کردیا جا ئے گا اگر چہ بیان کرنے والاسب متقین سے بڑا متقی ہو‘‘۔
پس اگر متأخرین علماء کے پاس سند ہے یا حوالہ سے بات کرتے ہیں تو ان کی بیان کردہ حدیث سر آنکھوں پر ، لیکن اگر ان کی بیان کردہ حدیث کی سند کا کہیں پتہ نہیں ہے ، اور بغیر سند کے یا مستند کتاب کے حوالے کے بیان کی جارہی ہے تو اس حدیث کو قبول نہیں کیا جائے گا، بلکہ اس کو موضوعات کی فہرست میں کردیا جائے گا ۔