سند کا مطالبہ کیا جاتا ، اگر حدیث کی سند بیان کی جاتی تو ٹھیک ورنہ اس کی طرف بالکل توجہ نہ دی جاتی ، ابن سیرینؒ فرماتے ہیں کہ:
لم یکونوا یسألون عن الاسناد فلما وقعت الفتنۃ قالوا سموا لنا رجالکم۔(مقدمۃ صحیح مسلم)
’’محدثین اسناد کے متعلق کچھ نہیں پوچھتے تھے لیکن جب فتنہ واقع ہوا تو محدثین نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ تمہاری بیان کردہ حدیث کے رواۃ بیان کرو‘‘۔
سند کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت ہی کا یہ مقولہ ہے کہ:
ان ھذا العلم دین فانظروا عمن تأخذون دینکم۔
’’ یہ علم دین ہے پس اس بات پر نظر رکھو کہ تم اپنا دین کس سے حاصل کرتے ہو‘‘۔
حضرت عبد اللہ بن مبارکؒ بیان فرماتے ہیں کہ:
الاسنادُ من الدینِ لولا الاسناد لقالَ مَن شائَ ما شائَ۔
(مقدمۃ صحیح مسلم )
’’سند بیانی دین کا شعبہ ہے ، اگر سند بیانی کا سلسلہ نہ ہوتا تو جس کے جی میں جو آتا بول دیتا‘‘۔
رواۃ کی تفتیش
احادیث کی سندوں کا اہتمام کرنے سے تمام احادیث کے سارے رواۃ سامنے آگئے ، اس کے بعد ایک ایک راوی کی حالت کو تفصیل سے دیکھا گیا ، د یانت داری ، پرہیز