ہیں جن میں صحابہث کے احتیاط کا ذکر ملتا ہے۔
عدالت صحابہ پر اہل سنت والجماعت کا اجماع
الغرض صحابہث کی جماعت نے احادیث کا ذخیرہ بے کم و کاست اپنے بعد والوں کے ہاتھوں میں دے دیا ، کسی ایک صحابی نے بھی حدیث کے باب میں جھوٹ نہیں بولا ، چنانچہ ساری امت کا اس پر اجماع ہے کہ ’’الصحابۃ کلھم عدول‘‘صحابہث سارے کے سارے عادل تھے،جھوٹ کا سایہ بھی ان حضرات مولی صفات پر نہیں پڑا تھا،بقول اقبالؒ
نقش ہے صفحۂ ہستی پہ صداقت ان کی
اسی وجہ سے روایت کا درجہ معلوم کرنے کے لئے صحابہ کے بعد کے راویوں کو دیکھا جاتا ہے وہ کیسے ہیں، جب سند کا سلسلہ صحابی تک پہنچ گیا اب وہ روایت مضبوط ہوگئی چاہے وہ کوئی بھی صحابی ہو چھوٹا ہو یا بڑا، ایک دو روایت بیان کرنے والا ہو یا سینکڑوں روایات بیان کرنے والا ہو، بعض لوگوں نے بعض صحابہ پر شک و شبہ ظاہر کیا ہے لیکن امت نے اس رائے کو رائے کے دانے کے برابر کی اہمیت نہیں دی،بلکہ اس کو پاگل کی بکواس یا دشمن کی بھڑاس سمجھ کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔
وضع حدیث کا آغاز
صحابہ کے دور میں کذب بیانی کا نام و نشان نہیں تھا، جب حضرت عثمان ؓ کی شہادت