{الذین یستمعون القول فیتبعون احسنہ} (الزمر۱۸)
کانوں میں انگلیاں ڈال دینا یا دل پر پر دہ ڈال دینا اور مصلح اور ناقد کی بات کی طرف توجہ نہ کرنا اپنا ہی نقصان ہے۔
اگر صحابہ ٔ کرام کی اتباع کو ہم اپنی قسمت سمجھتے ہیں اور ان کی ہر ادا کو لائق اتباع سمجھتے ہیں تو سن لینا چاہئے کہ صحابۂ کرام کسی بھی شخص کی تنقید کا شکریہ کے ساتھ استقبال کرتے تھے، خلفائے راشدین کی سیرت میں کئی مثالیں ایسی مل جائیںگی کہ انہیں کسی غلطی پر متنبہ کیا گیا اور انہوں نے قبول کیا حالانکہ بسا اوقات خلفاء کے عمل میں بھی جواز کا پہلو موجود ہوتا تھا، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ صفت بھی ان میں تھی کہ اپنے لئے اس بات کو اچھا نہیں سمجھتے تھے کہ کوئی ان پر تنقید کرنے سے جی چرائے، وہ اس کو خود کے لئے ظالم اور دین سے دوری کی علامت سمجھتے تھے۔
بلادلیل کسی بات پر بضد رہناجہالت ہے
بعض حضرات بلا وجہ ضد پر اڑ جاتے ہیں ، ضد کی بنیاد صرف یہ ہوتی ہے کہ
’’سارے لوگ بیان کرتے ہیں کوئی کچھ نہیں کہتا‘‘
’’ فلاں کتاب میں لکھا ہے‘‘
’’ فلاں عالم سے سنا ہے‘‘
ایسی بے بنیاد باتوں پر ضد کرنا اسی شخص کا کام ہوسکتا ہے جو یا تو حق کا طلبگار نہ ہو، بس اپنی معلومات کی دنیاہی میں رہنا چاہتا ہو یا پھر وہ شخص کرسکتا ہے جس کی آنکھوں سے حقیقت مخفی