(۱) بعض اسرائیلی روایات قرآن و حدیث کے موافق ہوتی ہیں، ان روایتوں کے متعلق کہ جواز کی روایتوں کو اختیار کرکے اس کو بیان کرنا جائزقرار دیا جا ئے گا ۔
(۲) کچھ اسرائلی روایتیں نہ موافق ہوتی ہیں اور نہ مخالف،ان کا حکم یہ ہے کہ اس صورت میں حدثوا عن بنی اسرائیل ولا حرج کے عموم میں شامل ہوکر اس کو بھی روایت کرنا جائز ہوگا ، البتہ ان روایتوں کی تصدیق نہیں کریں گے اور نہ ان کی تکذیب کریں گے ، اللہ کے رسول ا کا ارشاد ہے لا تصدقوا اھل الکتاب ولا تکذبوہ کہ اہل کتاب کو نہ سچا مانو اور نہ ان کو جھوٹا قرار دو ۔
(۳)اور بعض اسرائیلیات قرآن و حدیث کے خلاف ہے، ان کے متعلق منع کی روایتوں پر عمل کیا جائے گا اور ایسی روایت کو بیان کرنا جائز نہیں ہوگا ۔
(ملخص من’’الاسرائیلیات فی التفسیر والحدیث)
اسناد کی جانچ میں بے جا غلو
بعض لوگ اسناد کے باب میں اتنا غلو کرتے ہیں کہ حکایات اولیاء میں بھی اس طرح لازم کردیتے ہیں جس طرح حدیث میں لازم سمجھی جاتی ہے ، اگر کسی نے تاریخ کی کتاب سے کوئی عبرت کا واقعہ سنایا ، یا زاہدوں کے واقعات کا تذکرہ کیا گیا تو وہ سند کا مطالبہ کرتے ہیں ، اور سند مقبول نہیں ملی تو اس واقعہ کا انکار کردیتے ہیں ، بلکہ ناقل کی یا کتاب کی تنقید بھی کرتے ہیں ، اسے غلو اور بے جا تشدد ہی کہا جا سکتا ہے،کیوں کہ اسناد کی اہمیت و ضرورت خاص طور پر وہاں ہے جہاں کوئی امر شرعی بیان کیا جارہاہو ، خطیب بغدادی ؒ تحریر