دونوں قسم کی وحی فی نفسہ واجب العمل ہے
جس طرح قرآن کریم میں اللہ تعالی کو راضی کرنے والے اور نجات دلانے اعمال کی طرف رہبری کی گئی ہے اور اللہ تعالی کو ناراض کرنے والے اور ہلاکت میں ڈالنے والے اعمال سے روکا گیا ہے اسی طرح احادیث میں بھی ان چیزوں کا سبق ملتا ہے، جس طرح قرآن کے احکامات کا ماننا ضروری ہے بالکل اسی طرح اور اسی درجہ میں احادیث کی تعلیمات کوبھی اپنانا ضروری ہے ، کیونکہ احادیث کا مجموعہ بھی وحی کا حصہ ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
{ومَا ینْطقُ عنِ الھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلا وَحْیٌ یُوحٰی}
’’ اور وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتے ، جو کچھ کہتے ہیں وحی سے ہی کہتے ہیں‘‘
لہذا ایک مسلمان پر قرآن کی طرح حدیث بھی واجب العمل ہے، اصول فقہ کی معروف و مشہور کتاب اصول الشاشی میں مصنف ؒ تحریر فرماتے ہیں:
خبر رسول اللہ ﷺ بمنزلۃ الکتاب فی حق لزوم العلم والعمل بہ۔ (اصول الشاشی۷۳)
’’رسول اللہ ﷺ کی حدیث علم حاصل ہونے اور اس پر عمل کرنے کے لزوم کے حق میں کتاب اللہ یعنی قرآن کریم کے برابر ہے‘‘
چنانچہ اگر کوئی شخص ہمارے نبی ا کی زبان مبارک سے براہ راست کوئی حدیث سننے کے بعد اس کو ماننے سے انکار کردے تو وہ کافر ہوجا ئے گا، کیونکہ اس نے وحی کے ایک حصہ کا انکار کر دیا، جبکہ ایمان کے لئے مکمل وحی کا ماننا ضروری تھا، پس یہ دونوں تار مل کر روشنی کا مینار کھڑا کریں گے ، اگر ایک تار بھی کٹ گیا تو پھر روشنی غائب اور اندھیرا مسلط ہو جائے گا ۔