ہوتی ہے، ان دو کتابوں میں ایک سوال اٹھایا ہے کہ حضرت موسی ںنے ہی کیوں نمازوں میں کمی کی درخواست کرنے کی طرف توجہ دلائی، دوسرے انبیاء نے کچھ بھی اس کی طرف توجہ نہیں کی ؟ اس کے جواب میں یہ کہا ہے کہ جب موسی ںنے اس امت کی افضلیت کو دیکھا تو دعا کی تھی اللھم اجعلنی من امۃ محمد اے اللہ مجھے محمدا کی امت میں سے بنا ،پس ان کا اس امت کی فکر کرنا ایسا ہے جیسا کہ قوم کا ہی ایک آدمی اپنی قوم کی فکر کرے (گویا اس دعا سے موسی ؑ کا ایک خاص تعلق اس امت سے معلوم ہوتا ہے ، اسی تعلق کی بنا پر اس امت کی فکر فرمائی)اس جواب کا منشایہ ہے کہ حضرت موسی ںکو اس امت کے ساتھ خصوصی نسبت حاصل ہے اور اس خصوصی نسبت کی دلیل یہ دعا ہے اس دعا کو خصوصیت کے لئے دلیل بنانا اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ یہ دعا دوسرے انبیاء سے مروی نہیں ہے ۔ ( عمدۃ القاری (کتاب الصلاۃ ،باب کیف فرضت الصلوات فی الاسراء)؍ فیض القدیر، رقم الحدیث ۵۸۴۵)
رسول اللہ ا کے متعلق
٭کنت نبیا وآدم بین الماء و الطین۔
ترجمہ : میں اس وقت نبی تھا جبکہ آدم ںپانی اور مٹی کے درمیان تھے۔
٭کنت نبیا و لاآدم ولا ماء ولا طین۔
ترجمہ : میں اس وقت نبی تھا جبکہ نہ آدم ںتھے اور نہ پانی اور مٹی۔
تحقیق : ان دونوں روایتوںکی کوئی اصل نہیں ہے ۔