ہے ، البتہ اگر ان میں معتبر کتاب کا حوالہ ہے تو ٹھیک ہے ۔
(مستفاد از ’’رحمۃ اللہ الواسعہ ۲؍۵۱۴‘‘)
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہو گیا کہ اول دو طبقے کی چھ کتابوں( جن پر محدثین نے اعتماد کیا ہے )سے ہر کوئی فائدہ اٹھا سکتا ہے ، اور ان کے علاوہ جو کتابیں ہیں ان سے فائدہ اٹھا نے کے لئے علم حدیث میں مہارت ضروری ہے ، علم حدیث میں بصیرت رکھنے والا ان کتابوں کو دیکھے گا ، جو قبولیت کی شرائط پر پوری اترتی ہوں گی اس کو لے گا ، اور جن میں یہ شرائط نہیں ہوں گی ان کو رد کر دے گا ،ناقد کے لئے ان کتابوں کے مطالعہ کے دوران تنقیدی نگاہ رکھنا ، اور صحیح اور سقیم میں تمیز کرنے کے لئے ہمہ تن متوجہ رہنا ضروری ہے ،اس کے بغیر وہ بھی ان کتابوں سے حدیث نقل کرنے کا مجاز نہ ہوگا ، اور جس کو مہارت نہیں ہے وہ کسی حال میں ان کتابوں سے حدیث نقل نہیں کر سکتا، اسی طرح بے سند ،بے حوالہ بیان کرنے والے واعظوں سے ، اور صوفیائے کرام کے ملفوظات سے کوئی حدیث نقل کرنا بھی خطرے سے خالی نہیں ہے ، جب تک کہ اس کا حدیث ہونا کسی صاحب فن کی تصدیق سے معلوم نہ ہوجائے۔
موجودہ صورت حال
آج کل موضوعات کو روایت کرنا اتنا معمولی سمجھا جاتا ہے کہ گویا اس میں کوئی قباحت ہی نہ ہو، دانستہ یا نا دانستہ طور پر لوگوں کی بڑی تعداد اس میں پھنسی ہوئی ہے ، کتنے واعظین شعلہ بیانی کی دھن میں ، سامعین کی توجہ حاصل کرنے کے لئے اور مخاطبین کو متأثر کرنے کے شوق میں صحیح کے ساتھ ساتھ موضوع احادیث بیان کرنے سے بھی نہیں رکتے ،