بے دھڑک روایات واحکام بلا تحقیق بیان کر تے ہیں سخت گنہگار ہو تے ہیں ۔
(بیان القرآن ،آل عمران ص؍۴۵)
موضوعات کے پھیلنے کا ذمہ دارکون؟
اگر حقیقت سے پردہ اٹھاکر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان واعظین سے موضوعات کو بہت زیادہ فروغ ملتا ہے ، کرسی اور منبر میںیہ ایسا جادو ہے کہ بہت کم ہیں جو اس سے متأثر نہیں ہوتے ، باقی کثیر تعداد اس سحر کی زد میں آجاتی ہے ،منبر پر بیٹھتے ہی صحیح و سقیم کی تمیز جاتی رہتی ہے، اور پھر واعظین کے دلدادہ حضرات اسے لے اڑتے ہیں، حافظ سیوطی ؒ ابن جوزی کی الموضوعات کے حوالے سے لکھتے ہیں :
احدھما القصاص و معظم البلاء منھم یجری لانھم یریدون احادیث تتفق و ترقق والصحاح یقل فیہ ھذا۔(تحذیر الخواص)
’’جھوٹی حدیثیں بنانے والوں میں ایک واعظوں کا گروہ ہے ،اور سب سے بڑی مصیبت ان ہی سے پیش آتی ہے، کیوں کہ وہ ایسی حدیثیں چاہتے ہیں جو مقبول عام اور مؤثر ہوسکیں ، اور صحیح حدیثوں میں یہ بات کم ہو تی ہے‘‘ ۔
ابن قتیبہؒ تحریر فرماتے ہیں:
والقصاص فانھم یمیلون وجوہ العوام الیھم و یستدیرون ما عندھم بالمناکیر و الغرائب والاکاذیب من الاحادیث ومن شأن العوام القعود عند القاص ما کان حدیثہ عجیبا خارجا عن فطر