کثرت و عموم جواز کی دلیل نہیں ہے
یہ بات ناقابل تردید ہے کہ موضوعات کا ناقل کوئی بھی ہو بڑا گنہگار ہوگا ، جس طرح زنا کار ، چور اور شرابی کو ذلیل سمجھا جاتا ہے کیوں کہ ان لوگوں نے کبیرہ کا ارتکاب کیا ہے ،شریعت کی نظر میں اسی ذلت کا مستحق موضوع احادیث روایت کرنے والا بھی ہے، کیوں کہ اس نے بھی ایک کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا ہے ، صرف کبیرہ ہی نہیں بلکہ اکبر الکبائر میں ملوث ہوا ہے ، اگر سب لوگ اس گناہ میں ملوث ہیں اور ہر کوئی بغیر تحقیق کے نقل کردیتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ گناہ جائز ہوگیا ، اگر کسی بستی میں بے نمازی زیادہ ہو تو یہ نہیں سمجھاجاتا کہ نماز چھوڑنا جائز ہوگیا، پس یہ بات ہر شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ جو اپنے آپ کو شریعت و سنت کا پابند بنانا چاہتا ہے ، اور فاسق اور گنہگار کا لفظ اپنے لئے پسند نہیں کرتا اس کو موضوع احادیث کی روایت سے رکنا ہوگا ، اور بیانوں اوراصلاحی ، فکری اور تربیتی مضامین کو موضوع روایتوں سے پاک کرنا پڑے گا، اور کسی بھی استشہاد کے موقع پراس سے احترازلازم ہوگا ، اگرکوئی دلوں میں تازگی ، عمل میں قوت پیدا کرنے اور جذبۂ ایمانی میں روح پھونکنے والا واعظ یا اصلاحی مضامین سے کتابوں اور رسائل کو آراستہ کرنے والا کوئی انشاء پردازدوسروں کی فکر میں مشغول ہوکر اس حکم رسول ا سے بے اعتنائی برتتا ہے تووہ دوسروں سے گندگی دور کرنے کے لئے اپنا صاف شفاف لباس استعمال کرکے حماقت کا ثبوت دے رہاہے، قوم کے لئے دردمند بن کر اپنے متعلق بے درد بن رہا ہے ،اللہ کو راضی کرنے کی راہوں میں اللہ کو ناراض کر رہا ہے ،دوسروں کو جہنم سے ہٹا کر خود اس میں چھلانگ لگانے جارہا ہے، حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں :آج کل جواکثرجاہل یا کالجاہل(جاہل جیسے) وعظ کہتے پھر تے ہیں اور