اس کو ضرور پڑھئے ! ورنہ غلط فہمی کا امکان ہے
٭حدیث کو موضوع کہنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ بات رسول اللہ ا کی کہی ہوئی نہیں ، کسی نے رسول اللہاکی طرف غلط منسوب کردی ہے۔
٭کسی حدیث کو ’’بے اصل‘‘(یعنی اس کی کوئی اصل نہیں ہے)اس وقت کہا جاتا ہے جب کہ اس حدیث کی کوئی سند نہ ہو، یا سند تو ہو لیکن راوی کے کذاب ہونے کی وجہ سے کالعدم ہو۔ (مقدمۃ المصنوع۱۷-۲۱)
مذکورہ بالا دونوں طرح کی روایتوں کو بیان کرنا ، ان پر عمل کرنا اور ان کو حدیث سمجھنا گناہ ہے۔
٭اس کتاب میں ’’بہت زیادہ کمزور ‘‘روایتیں بھی کہیں کہیں ملیں گی ، ان روایات کو داخل کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ موضوع کے برابر ہیں ، کیوں کہ موضوع اور ضعیف میں فرق ہے جیسا کہ پہلے حصے میں وضاحت کردی گئی ہے، یہاں ان کو ذکر کرکے یہ بتانا مقصود ہے کہ یہ روایت لائق عمل نہیں ہے ، علماء نے وضاحت کی ہے کہ ضعف شدید کی حامل روایتیں فضائل اعمال میں بھی ناقابل قبول ہیں، مختلف فیہ روایتیں ذکر کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ان کا ضعف شدید واضح ہوجائے۔
٭بہت ہی کم روایتیں ایسی بھی ہیں جو ضعیف ہیں، کسی مناسبت سے ان کو بیان کیا گیا ہے، ان کو روایت کرنے اور ان پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، اکابر نے موضوعات پر جو کتابیں لکھی ہیں ان میں بھی ضعیف احادیث ضمناً کسی مقصد سے بیان کر دینے کی مثالیں ملتی ہیں ۔