طرح نقل کیا جاتا ہے کہ گویا اس میں کوئی دو رائیں نہیں ہیں اور حال یہ ہوتا ہے کہ محققین ان کے خلاف ہوتے ہیں ، اس کتاب کی تالیف کے دوران خود عاجز اردو کی بعض کتابوں سے اس مغالطے میں پڑا تھا، یعنی اس میں بیان کردہ موضوع روایت کو موضوع سمجھ لیا لیکن پھر تحقیق سے معلوم ہوا کہ محدثین تو اس کے خلاف ہیں، پس کسی ایک کتاب کے فیصلے پر مکمل اعتماد کر لینا ، دوسرے فریق کی رائے اور اس کے دلائل جاننے کی کوشش نہ کرنا غلطی کا سبب بن سکتا ہے۔
اسی طرح آج کل انٹرنیٹ پر اور بعض رسائل میں غیر مقلدین کی طرف سے احادیث پر کلام کیا جاتا ہے، اور اس میں بہت ساری معتبر روایات کو موضوع کہہ دیا جاتا ہے، اس لئے ایسے بددین لوگوں کی تلبیس سے متنبہ رہنا ضروری ہے۔
وضع کا حکم لگانے کا حق کس کو ہے
کسی حدیث کو موضوع کہنا انہیں لوگوں کا حق ہے جو علم حدیث سے پوری واقفیت رکھتے ہوں، پورا ذخیرۂ حدیث ان کے سامنے ہو، اور محدثین کی اصطلاحات اور ان کے مذاق و مزاج سے واقف ہوں، جو اس صفت کا حامل نہ ہو اس کو حق نہیں ہے کہ کسی حدیث پر موضوع ہونے کا حکم لگائے، بلکہ عامی اور علم حدیث میں غیر پختہ آدمی کے لئے فن کی بڑی کتابوں اور متقدمین کے اقوال سے کوئی نتیجہ نکالنا بھی درست نہیں ہے، کیوں کہ علم حدیث کی اصطلاحات اور محدثین کرام کے مزاج کو جاننے کے کئے علم حدیث میں مہارت ضروری ہے ،یہ ہر کس وناکس کا کام نہیں ہے، حافظ صلاح الدین علائی فرماتے ہیں :