حدیث کو روایت کیا تب بھی حرام ہے، اور سخت گناہ ہے، البتہ اگر یہ وضاحت کردی کہ یہ روایت موضوع ہے اور اس کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف غلط ہے تو جائز ہے، تنزیہ
الشریعہ میں ابن عراقؒ لکھتے ہیں:
حکم الموضوع ان تحرم روایتہ فی ای معنی کان بسند اوغیرہ مع العلم بحالہ الا مقرونا بالاعلام بانہ موضوع و کذا مع الظن لقولہ ﷺ من حدث عنی بحدیث یری انہ کذب فھو احد الکاذبین۔ ( تنزیہ الشریعہ ۱؍۸)
’’موضوع حدیث کا حکم یہ ہے کہ اس کا روایت کرنا حرام ہے جونسے بھی معنی میں ہو چاہے سند کے ساتھ ہو یا اس کے بغیر ہو ، جبکہ اس کا موضوع ہونا معلوم ہو یا اس کے موضوع ہونے کا گمان ہو رسول اللہ ا کی اس حدیث کی وجہ سے من حدث عنی بحدیث یری انہ کذب فھو احد الکاذبین(جس نے میری طرف سے کوئی ایسی حدیث نقل کی جس کو وہ جھوٹ گمان کرتا ہے تو وہ بھی جھوٹوں میں شامل ہے) البتہ اگر جھوٹ کی وضاحت کے ساتھ ہو تو جائز ہے‘‘۔
کیوں کہ محض حوالہ نقل کرنے سے قاری کو اس کا موضوع ہونا معلوم نہیں ہوسکتا، حالانکہ موضوع روایت کو وضع کی تصریح کئے بغیر بیان کرنا حرام ہے، اسی طرح حدیث کی سند کے ذکر سے بھی ذمہ داری سے سبکدوش نہیں ہوگا، مولانا حبیب الرحمن اعظمیؒ فرماتے ہیں
ان ذکر الاسانید لا یبریٔ عن العھدۃ ، فان الاسانید یخفی حالھا علی اکثر المشتغلین بالحدیث فضلا عن غیرھم ، وانہ لا