لکھی ہوئی ہیں وہ موضوع ہیں۔
(الآثار المرفوعۃ للکنویؒ ۸۱ ؍؍ تذکرۃ الموضوعات للفتنیؒ ۴۵)
٭پندرہویں شعبان کے روزے کی کوئی فضیلت نہیں ہے، اس روزے کا تذکرۃ صرف ایک اوپر والی روایت میں ہے،جس میں ’’صوموا نھارھا‘‘ وارد ہے، اوراس روایت کا حال معلوم ہوگیا،مولانا منظور نعمانی ؒنے تحریر فرمایا ہے کہ پندرہویں شعبان کے روزے کے متعلق صرف یہی ایک حدیث روایت کی گئی ہے۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا یونس صاحب دامت برکاتہم اس روایت کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ :
ابو بکر بن عبد اللہ بن محمد بن ابی سبرہ شدید الضعف، متہم بالکذب و الوضع ہے ، ا ور جو متہم بالکذب و الوضع ہو اس کی روایت محدثین ک اصول پر (بطور ظن غالب)موضوع ہے، اور اگر اس روا یت کو موضوع نہ کہیں بلکہ صرف ضعیف ہی قرار دی جائے جیسا کہ منذری ، عراقی اور بوصیری کی رائے ہے تو بھی یہ حدیث قابل قبول نہیں ہے، اس لئے کہ یہ شدید الضعف ہے، اور شدید الضعف حدیث نہ باب اعمال میں معتبر ہے نہ فضائل میں ، کما صرح بہ الحافظ ابن حجر ؒ وتبعہ السخاویؒ والسیوطیؒ وغیرھما۔
(نوادر الحدیث مع اللآلی المنثورہ ۲۶۰)
ابن تیمیہ اقتضاء الصراط (۲/۱۳۸) میں لکھتے ہیں :
فاما صوم یوم النصف مفردا فلا اصل لہ ۔
’’پندرہویں شعبان کے روزے کی علیحدہ کوئی اصل نہیںہے‘‘۔