ترجمہ : جب نصف شعبان کی رات ہو تو اس رات کا قیام کرو، اور اس کے دن کا روزہ رکھو، اس لئے کہ اللہ تعالی اس رات غر وب آفتات کے وقت سے ہی پہلے آسمان پر نزول فرماتے ہیں ، اور فرماتے ہیں کہ کوئی ہے مغفرت طلب کرنے والا کہ میں اس کی مغفرت کروں؟ کوئی ہے روزی طلب کرنے والا کہ میں اسے روزی عطا کروں؟ کوئی ہے مصیبت میں پھنسا ہوا میں اسے عافیت دوں؟ کیا کوئی ہے ایسا ، کیا کوئی ہے ایسا؟ یہاں تک کہ صبح ہوجائے۔
تحقیق : یہ روایت بہت زیادہ ضعیف ہے ، اور بعض نے اس کو موضوع کہا ہے ، اس کی سند میںایک راوی’’ ابن ابی سبرہ‘‘ہے، ائمۂ جرح وتعدیل نے اس کی جرح کی ہے، حافظ ابن حجرؒ نے تقریب میں لکھا ہے کہ علماء نے اس پروضع حدیث کا الزام لگایا ہے، نسائی نے متروک کہا ہے ، امام احمدؒ اور ابو حاتم رازی ؒ سے مروی ہے کہ وہ حدیث گھڑتا تھا ۔(تقریب التہذیب۲؍۶۲۳؍؍میزان الاعتدال ۴؍۵۰۴؍؍ الجرح والتعدیل ۷؍۳۰۶؍؍ التذکرۃ ۴۵؍؍ تحفۃ الاحوذی ۲؍۲۷۷)
حضرت مولانا منظور نعمانی ؒ اس حدیث کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں:
یہ حدیث سند کے لحاظ سے نہایت ضعیف قسم کی ہے، اس کے ایک راوی ’’ابو بکر بن عبد اللہ ‘‘(ابن ابی سبرہ )کے متعلق ائمۂ جرح و تعدیل نے یہاں تک کہا ہے کہ وہ حدیثیں وضع کیا کرتا تھا۔ (معارف الحدیث ۴/۱۷۴)
٭شب برأت میں نمازوں کے متعلق کوئی خاص عدد یا کوئی خاص طریقہ نہیں ہے، اور جو روایتیں اس کے متعلق بیان کی جاتی ہیں اور احیاء العلوم، قوت القلوب وغیرہ میں