اس حدیث کی کوئی سند خالی از علت نہیں ہے ، ابوبکر بزار اور ابن حزم اس کے بے اصل ہونے کے قائل ہیں ، ابو حیان المفسرکی بھی یہی رائے ہے ، ابن قیمؒنے’’ اعلام الموقعین‘‘ میں اسی طرف رجحان ظاہر کیا ہے ، اور بزار کا قول نقل کیا ہے، ملا معین السندی ؒنے ’’الدراسات‘‘ میں لکھا ہے کہ یہ حدیث موضوع ہے۔
قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے السیف المسلول میں تحریر فرمایا ہے کہ اس کا متن مشہور ہے ، بیہقی نے مختلف سندوں سے اس کو روایت کیا ہے جن کے ملنے سے یہ حدیث درجۂ حسن تک پہنچ جاتی ہے۔
(حضرت شیخ اس کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں ) و عندی فی دعوی الحسن نظر (یعنی میرے نزدیک حسن کا دعوی کرنا محل نظر ہے)۔
اور بعض محدثین نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔(نوادر الحدیث ۲۶۷،۲۷۱)
تتمہ : پہلی اشاعت میں اس روایت پر علماء کی تنقید کے نتیجے میں اس کو ناقابل اعتبار سمجھ کر کتاب میں شامل کیا تھا، لیکن اب عاجز اپنے اس خیال سے رجوع کرتا ہے، اور اس کو معتبر تصور کرتا ہے۔
٭ انّ بلالا صرآی فی منامِہ النبیّ ﷺ وھـو یقـولُ لَہ ما ھذہ الجفـوۃُ یا بلالُ! امـا آن لکَ اَنْ تزورنـی یا بلالُ! الخ
ترجمہ : حضرت بلال صنے خواب میں رسول اللہاکی زیارت کی ، آپ ا حضرت بلال صسے فرما رہے تھے کہ اے بلال! یہ کیا بے رخی ہے ؟ کیا اب بھی میری