کرے گا اور توثیق کرنے والے علماء کے اقوال سے نظریں چرا کر اس طرح گزر جائے گا جیسے ان اقوال کو جانتا ہی نہیں۔
ایک ہی بات کو کبھی حدیث کی صحت کے لئے کام میں لیتا ہے اور اسی بات سے کسی حدیث کو ضعیف بھی کہہ دیتا ہے، مثلا’’ مقبول‘‘ کا لفظ ابن حجرؒ کی ایک اصطلاح ہے ، راویوں پر کلام کرتے ہوئے بعض راویوں کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ وہ ’’مقبول‘‘ ہے ، البانی اس ایک لفظ سے روایت کو جو چاہے وہ درجہ دے دیتا ہے ، کبھی کسی روایت کو صحیح کہے گا کبھی حسن کہے گا ، اور کبھی کہے گا کہ یہ روایت ضعیف ہے اس لئے کہ اس کے ایک راوی کے بارے ابن حجرؒ نے لکھا ہے کہ وہ ’’مقبول ‘‘ہے، اسی ایک لفظ سے ہر طرح کا درجہ اس کے یہاں نکل سکتا ہے۔اسی طرح لفظ ’’غریب‘‘ کا مقام متعین کرنے میں بھی اپنی خواہشات کا اتباع کیا ہے کبھی تو کہا ہے کہ اس روایت کو فلاں محدث نے ’’غریب‘‘ کہا ہے اور غریب کا مطلب ہوتا ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے، اور کبھی لکھتا ہے غریب کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ حدیث ضعیف ہے، غریب حدیث صحیح بھی ہوسکتی ہے۔
ایک محدث کی بات کی جب ضرورت پڑتی ہے تو قبول کرلیتا ہے اور جب وہ اس کی رائے کے مخالف ہوتی ہے تو اس کو رد کردیتا ہے کہ ان کا اعتبار نہیں کیا جائے گا،اسی طرح ائمۂ جرح و تعدیل کے اقوال کو قبول کرنے یا رد کرنے کے سلسلے میں بھی خیانت کا ثبوت دیا ہے، چنانچہ کبھی کہتا ہے کہ ابن حبان کی توثیق کا کوئی اعتبار نہیں ہے اس لئے یہ روایت ضعیف ہے کبھی ابن حبان کی توثیق پر روایت کی صحت کا فیصلہ کرتا ہے یا اس کو حسن قرار دے دیتا ہے۔
اپنی رائے کو ثابت کرنے کے لئے صرف موافق احادیث کو ذکر کرے گا اور قارئین