دوسرے کی جگہ سمجھ لیتا ہے، پھر اس راوی کے مطابق روایت پر حکم لگاتا ہے، جس کے نتیجے میں معتبر روایت کو غیر معتبر اور غیر معتبر روایت کو صحیح کہہ دیتا ہے۔
ایک راوی سے چار لوگوں نے حدیث لی ہے پھر بھی اس کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ راوی مجہول ہے۔
علوم حدیث کی اصطلاحات سے بھی پوری واقفیت نہیں ہے ، جیسے ایک حدیث کے ’’شاہد‘‘ کو پیش کرکے کہا کہ یہ اس کا ’’متابع‘‘ ہے، اسی طرح حدیثیں متعدد ہیں یا سندیں متعدد ہیں اس میں بھی بصیرت نہیں رکھتا۔
مصنفین اور راویوں کے مزاج و عادات سے ناواقف ہے، اور ان کے کلام کو صحیح سمجھنے میں غلطی کرتا ہے، جیسے جہاں بھی ’’قیل‘‘ یا ’’ رُوی‘‘ دیکھ لیا وہاں ضعف کا حکم لگادیا، حالانکہ ہر جگہ مصنفین اس کا خیال نہیں رکھتے ، راوی نے اگر حدیث کی تشریح کے لئے کوئی زیادتی کی تو اس کو حدیث کا جز سمجھ لیتا ہے۔
اگر کوئی حدیث اس کو نہیں ملی تو اس حدیث کے نہ ہونے کا فیصلہ کردیتا ہے ، جیسے ابن تیمیہ ؒ نے ایک حدیث کے متعلق لکھا ہے کہ یہ صحیح حدیث ہے اس پر البانی نے کہا کہ مجھے یہ روایت حدیث کی کسی کتاب میں نہیں ملی ، شاید ابن تیمیہؒ کو کسی دوسری حدیث سے اشتباہ ہوگیا ہوگا۔
علمی کوتاہی تو پھر بھی بعض مرتبہ برداشت کرلی جاتی ہے لیکن دیانت کی کمی ناقابل برداشت ہے، البانی دیانت داری سے تہی دامن تھا، اگر کسی حدیث کو نہیں ماننا ہے تو کسی ایک کمزور راوی کا ہاتھ پکڑے گا اور اس کے متعلق جرح کرنے والے محدثین کے اقوال بیان