کو یہ باور کرائے گا کہ بس اس باب میں یہی روایات ہیں، اور اگر مخالف روایات کا بھی ذکر کردے گا تو صرف اشارۃ ذکر کرنے پر اکتفا کرے گا ، پورا متن ذکر نہیں کرے گاتاکہ اس حدیث سے کوئی آگاہ نہ ہوجائے۔
البانی نے اسلاف کے کلام پر تنقید کرکے ان سے بد گمان کرنے کی اور ان سے اعتماد ختم کرنے اور خود کو بڑا علامہ اور فہامہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس نے احادیث کا جو درجہ متعین کیا ہے اس میں بھی بہت ہی تناقض پایا جاتا ہے، ایک حدیث کو صحیح کہتا ہے پھر اسی کو ضعیف کہہ دیتا ہے، ایک حدیث کو کسی جگہ موضوع کہا ہے، پھر کسی اور جگہ اس کو ضعیف لکھا ہے ، اس طرح احادیث کے درجہ کی تعیین میں بہت زیادہ ٹکراؤ پایا جاتا ہے، بعض لوگوں نے البانی کے تناقضات کو جمع کرکے ایک کتاب تیار کی ہے۔
یہ غیر مقلدین کے مایۂ ناز محدث کا اصلی چہرہ ہے جو سرسری طور پر قارئین کو دکھایا گیا ہے، اسی سے ہر کوئی فیصلہ کرسکتا ہے کہ البانی خوبصورت دکھتے ہیں یا بدنما اور داغدار نظر آرہے ہیں، حالانکہ یہ توان کے کرشموں کی ایک معمولی جھلک تھی تفصیل سے دیکھنے کے لئے ’’البانی شذوذہ و اخطائہ ‘‘ کا مطالعہ کیا جائے، اس کو دیکھنے سے معلوم ہوگا کہ ان کے کرتوتوں نے شیطان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔
جن لوگوں کے بڑے کا یہ حال ہے ان کے چھوٹوں اور ان کے متبعین کا کیا عالم ہوگا ظاہر ہے، چنانچہ وہ بھی اپنے بڑے کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ، اور بد دیانتی اور خیانت کا ایک دوسرے سے بڑھ کر نمونہ پیش کر رہے ہیں۔