اپنے تمام دلائل کے باوجود میدان ہار گیا، ایسا رویہ اسلام میں کب سراہا جاسکتا ہے، اس کی مثال تو ایسی ہے کہ ایک مومن فاسق نے کوئی غلطی کی، مثلا چوری کی، اب کسی نے اطلاع دینے کے لئے کہا کہ وہاں ایک مسلمان نے چوری کی ہے تو سننے والا اس پر برس پڑا اور کہنے لگا کہ تم اسلام کے مخالف ہو، جس طرح مومن کی کسی غلطی کو واضح کرنے سے کوئی اسلام کا مخالف نہیں ہوتا اسی طرح کسی بھی تحریک و تنظیم کی طرف منسوب ہونے والے کسی بھی شخص کی کوئی غلطی واضح کرنے سے وہ اس کا مخالف نہیں ہوجاتا، جس طرح چوری سے اسلام کو کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ وہ تو اس کا مخالف ہے اسی طرح اسلام کی خدمت کرنے والی تمام تنظیمیں اسلامی مکروہات و محرمات سے بیزار ہیں ، اپنی بے اصولی اور بد عنوانی کو ان تحریکوں کے سر تھوپنا ایسا ہی ہے جیسا کہ چوری کرکے اسلام کے سر ڈال دینا،اور ایسی تعبیرات تو عام بول چال میں بہت ہے مثلا مسلمان دنیا میں مشغول ہوگئے، مسلمان سنت سے دور ہوگئے، فلاں بستی میں سارے مسلمان سود میں ملوث ہیں،کتنے نماز ی حضرات معاملات میں صفر ہیں لیکن کوئی بھی یہ نہیں سمجھتا کہ یہ اسلام یا نماز کی مخالفت ہے۔
اگر مصلح کا انداز صحیح نہیں ہے یا اخلاص سے خالی ہے تواس نے اپنے فریضے میں کوتاہی کی ، اس نے اپنا فرض پورا نہیں کیا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آپ بھی اپنے ایک فرض میں کوتاہی کرے، اگر کوئی صابون لے کر آپ کے کپڑے صاف کررہا ہے تو آپ کا تو فائدہ ہی ہے ، اگر آپ اس بات کی تحقیق میں لگ گئے کہ اس کے کپڑے بھی صاف ہے یا نہیں تو آپ کا نقصان ہوجائے گا، آپ کے کپڑے بھی میلے رہ جائیںگے، اگر کوئی کسی کے زخم پر مرہم لگانے کی کوشش کرے تو زخمی آدمی یہ نہیں دیکھے گا کہ مرہم لگانے والے شخص کے