سے اتفاق کیا ہے ، اور ابن حبان ؒنے کہا ہے کہ اس کی کوئی اصل نہیں ہے ، حافظ ذہبی ؒ اورحافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے ان سے اتفاق کیا ہے، ابن جوزیؒ نے لکھاہے کہ: یہ حدیث موضوع ہے ، اللہ تعالی کی لعنت ہو اس حدیث کے گھڑنے والے پر ، اس کا مقصد اسلام میں عیب پیدا کرنے اور اس کا مذاق اڑانے کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے ۔
(اللآلی المصنوعہ ۱/۲۷۶، تنزیہ الشریعۃ ۱/۳۲۶)
اسی عالم صاحب نے یہ حدیث بھی بیان کی ہے :
معراج کی رات حضور اقدس ا نے اپنے رب سے ہمکلامی کرتے ہوئے عرض کیا کہ : اے پرورگار! آپ نے حضرت ابراہیم ںکو خلیل بنایا، اور ان کو ملک عظیم سے نوازا،اور آپ نے موسی ںسے کلام فرمایا،اور ادریس ںکو بلند مقام عطا فرمایا،اور سلیمان ںکوایسا ملک دیاجوان کے بعد کسی کو میسر نہ ہوگا،اے پروردگار! آپ نے میرے لئے کیا انعام رکھا ہے؟ اللہ تعالی نے فرمایا اے محمد ! جس طرح میں نے ابراہیم کو خلیل بنایا تمہیں بھی خلیل بنایا ،اور جس طرح موسی سے بات کی اسی طرح تم سے بھی کلام کیا،آپ کو سورۂ فاتحہ اور سورۂ بقرہ کی آخری آیتیں عطا کیں ، یہ دونوں چیزیں میرے عرش کے خزانوں میں سے تھیں، یہ میں نے کسی اور نبی کو نہیں دیں، اور میں نے آپ کو سر خ و سفید اور جن و انس کی طرف رسول بنا کربھیجا ، اتنی عام رسالت کے ساتھ میں نے کسی نبی کو نہیں بھیجا ، آپ کے لئے مال فییٔ کو حلال کردیا، یہ پہلی امتوں کے لئے حلال نہ تھا،اور رعب کے ذریعہ آپ کی مدد کی حتی کہ آپ کا دشمن آپ سے ایک مہینہ کی مسافت کی دوری پر بھی آپ سے ڈرتا ہے،اور میں نے آپ کو سب کتابوں سے افضل کتاب عطا کی،اور میں نے آپ کا سینہ کھول دیا ، اور