رہ گئی ہو ، کیوں کہ یہ بات تو ثابت شدہ ہے کہ بڑے بڑے انسانوں سے بھی غلطیاں ہوسکتی ہیں ، پس کسی کتاب میں آجانا یا کسی عالم کا بیان کردینا کسی حدیث کی صحت کا ثبوت کیسے ہو سکتا ہے، چنانچہ خود عاجز نے دور حاضر کے مقبول و مشہور علماء کے بیان میں ایسی حدیثوں کا تذکرہ سنا ہے جن کو محدثین نے موضوع بتایا ہے مثلا ایک ایسے عالم دین کے بیان میں یہ حدیث سنی جن کے بیانات طبع ہو کر قبولیت پا چکے ہیں ، اور کیسٹوں میں بھی ان کے بیان بکتے ہیں ، اور انٹرنیٹ پر کثیر تعداد میں نشر ہو رہے ہیں:
لما فتح اللہ علی نبیہ خیبر اصابہ من سہمہ اربعۃ ازواج نعال و اربعۃ ازواج خفاف و عشرۃ اواق ذھب و فضۃ و حمار اسودالخ۔
ا للہ تعالی نے میرے دادا کی پشت سے ساٹھ گدھے پیدا کیے ان سب پر صرف انبیاء نے سواری کی ہے ، اب ان کی نسل میں سے میرے سوا کوئی باقی نہیں ہے ، اور نہ انبیاء میں سے آپ کے سوا کوئی باقی ہے ، آپ ا نے فرمایا کہ میں نے تیرا نام یعفور رکھا ، پھر آپ ا نے پوچھا کہ کیا گدھی کی خواہش ہے ؟ اس نے کہا نہیں ، حضور ااس کو کسی آدمی کے دروازے پر (بلانے کے واسطے) بھیجا کرتے ، وہ دروازے کے پاس آکر سر سے دروازہ کھٹکھٹاتا ، جب گھر کا مالک باہر آتا تو اشارہ کرتا کہ رسول اللہ ا کے پاس چلئے ، جب رسول اللہ ا کا انتقال ہوگیا تو بیقراری میں ابوالہیثم بن التیہان کے کنویں میں گر پڑا(مکمل روایت وترجمہ دوسرے حصے میں دیکھئے )۔
حالانکہ ابن جوزیؒ نے اس کو موضوع کہا ہے، اور علامہ سیوطی ؒاور ابن عراقؒ نے ان