رسول اللہ ﷺ کی احادیث پر عمل کرتے ہوئے اور سلف صالحین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے احتیاط کا دامن تھامنے کی ضرورت ہے، ہر کس و ناکس کی بیان کردہ حدیث کو قبول کرنے کے بجائے محتاط اور باصلاحیت لوگوں سے حدیث قبول کرنی چاہئے، نئی نئی روایات سنانے والے لوگوں کے متعلق رسول اللہ ا نے حکم فرمایا تھا فایاکم وایاھم ( یعنی تم ایسے لوگوں سے دور رہنا)۔
پس جن واعظوں کی عادت ہے نئی نئی روایات بیان کرنا، اور عجیب و غریب احادیث سنانا ایسے واعظوں سے خود کو دور رکھنا ہی بہتر ہے، ایسے ہی ایک واعظ کی غلطی پر حضرت تھانویؒ نے فرمایا ہے کہ ۔۔۔
ایسے واعظوں کا وعظ ہی کیوں سنا جا تا ہے اور ان سے سند یا حوالہ کا مطالبہ کیوں نہیں کیا گیا کی اسی جلسہ میں حقیقت کھل جاتی ۔
(آداب تقریر و تصنیف ص؍۸۴)
آج کل ٹی وی پر اور انٹرنیٹ پر بہت سارے بیانات نشر ہورہے ہیں، جن میں سے کچھ واعظین تو جانے پہچانے شہرت یافتہ اور قابل اعتماد ہیں، لیکن ایک بڑی تعدادایسی بھی ہیں کہ ان کا کوئی تعارف نہیں ہوتا، ان کی ذاتی زندگی کیسی ہے وہ کس مسلک سے تعلق رکھتے ہیں کچھ معلوم نہیں ہوتا ایسے لوگوں کا بیان خطرے سے خالی نہیں ، بس کسی کے انداز بیان پر فدا ہوکر اپنے موبائیل کو ان کے بیانات سے سجا دینا دینی نقطۂ نظر سے کوئی قابل تحسین عمل نہیں ہے، اگر اپنی اصلاح مقصود ہے تو کتنے معتمد اور معتبر علماء کے بیانات بھی تو نشر ہورہے ہیں، ان کو سنئے ، ان کے انداز بیان کے بجائے ان کے اخلاص و تقوی اور ہمدردی کو