طلب کرے پھر بھی کوئی جواب نہ ملے تو وہ واپس لوٹ جائے، (بعض روایات میں آتا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ جب تم نے کل آواز دی تو ہم نے سنی تھی لیکن ہم اس وقت کام میں مشغول تھے، اگر کچھ اور رک جاتے تو تمہیں اجازت مل جاتی ، اس پر حضرت ابو موسیؓ نے کہا کہ میں نے وہ کام کیا جو سنا تھا پھر رسول اللہ ﷺ کی مذکورہ حدیث سنائی) حضرت ابوموسیؓ نے فرمایا کہ میری اس بات پر عمر نے کہا کہ اس پر ضرور کوئی شہادت پیش کرنی پڑے گی کہ یہ رسول اللہ ﷺ کی حدیث ہے،ورنہ ایسی سزا دوںگا کہ دوسروں کے لئے نصیحت ہوجائے گی، حضرت ابوموسی ؓ کی بات سن کر حضرت ابی بن کعبؓ نے فرمایا کہ تمہارے ساتھ مجلس میں شریک لوگوں میں سب سے چھوٹا شخص آئے گا، اس مجلس میں حضرت ابو سعید خدریؓ سب سے چھوٹے تھے، ان کی طرف متوجہ ہوکر حضرت ابیؓ نے فرمایا : اے ابو سعید اٹھو اور گواہی دو، حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ پھر میں ان کے ساتھ گیا اور گواہی دی، حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ میں نے تم کو جھوٹا نہیں سمجھاتھا اور یقینا تم امانت دار ہو لیکن رسول اللہ ﷺ سے روایت کرنا بڑا سخت کام ہے۔
حضرت ابی بن کعب ؓ نے حضرت عمرؓ سے کہا(وہ بھی وہاں پہنچ گئے ہوںگے)کہ اے عمر! رسول اللہ ﷺ کے صحابہ پر عذاب مت بنو، تو حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ سبحان اللہ ! اس میں کون سی عذاب بننے کی بات ہے ، میں نے ایک بات سنی اس پر میں نے چاہا کہ اس کی تحقیق کروں۔
(فتح الباری لابن حجرؒ-کتاب الاستئذان، باب التسلیم والاستئذان ثلاثا)