’’ایک وہ دور تھا کہ جب ہم سنتے کہ کوئی آدمی قال رسول اللہ ا کہہ رہا ہے تو ہماری نگاہیں فورا اس کی طرف اٹھ جاتی تھیں ، اور ہم ہمہ تن گوش ہوکر اس کی بات کو سنتے تھے ، پھر جب لوگ ہر سرکش اور غیر سرکش پر سوار ہونے لگے ، اور ہر طرح کی باتیں بیان کرنے لگے تو اب ہم لوگوں سے صرف انہیں حدیثوں کو قبول کرتے ہیں جن کو ہم خود جانتے ہیں‘‘ ۔
حضرت ابن عباس ؓ کے قول کی تشریح و تفصیل کرتے ہوئے مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ تحریر فرماتے ہیں :
ای ما یوافق المعروف او نعرف فیہ امارات الصحۃ و سمات الصدق۔ (فتح الملہم)
’’یعنی جو جانی اور پہچانی ہوئی اور مشہور روایتوں کے موافق ہوں یا ان میں صحت کی نشانیاں اور سچائی کی علامتیں پائی جائیں‘‘۔
ملا علی قاری ؒ تحریر فرماتے ہیں:
وکان ابو بکر وعمر یطالبان من روی لھما حدیثا عنہ ﷺ لم یسمعاہ منہ باقامۃ البینۃ علیہ ویتوعدانہ فی ذلک وکان علی یستحلفہ علیہ۔ (الاسرار)
’’اور حضرت ابو بکر صدیق ؓ اور حضرت عمر ؓ کے سامنے کوئی شخص رسول اللہ ﷺ کی کوئی ایسی حدیث بیان کرتا جو انہوں نہیں سنی تو وہ راوی سے کوئی گواہ کا مطالبہ کرتے تھے، اور اس کے بارے میں دھمکی بھی دیا کرتے تھے، اور حضرت علی ؓ حدیث بیان کرنے والے سے قسم کھلاتے تھے۔