رجلا اعرف وجھہ ولا ادری مااسمہ یحدث۔
فتح الملہم۱/۳۴۲۔
’’شیطان ایک مرد کی صورت اختیار کرکے لوگوں کے پاس آتاہے، پھر ان سے جھوٹی حدیث بیان کرتا ہے ، جب لوگ اس جگہ سے جدا ہوجاتے ہیں تو ان میں سے ایک شخص کہتا ہے کہ میںنے سنا ایک شخص سے جس کی صورت میں پہچانتا ہوں لیکن نام نہیں جانتاوہ یہ بیان کررہاتھا‘‘۔
اس کی تشریح کرتے ہوئے مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ فرماتے ہیں:
حاصل ما قال عبد اللہ ان لا یقبل روایۃ المجھول وانہ یجب الاحتیاط فی اخذ الحدیث ، فلا یقبل الا من اھلہ، وانہ لا ینبغی ان یروی عن الضعفاء۔فتح الملہم۱/۳۴۲
ا بن مسعودؓ کے فرمان کا حاصل یہ ہے کہ مجہول راوی کی روایت قبول نہ کی جائے، اور یہ کہ حدیث کے لینے میں احتیاط ضروری ہے، پس اسی شخص سے لی جائے گی جو اس کا اہل ہو، اور ضعیف راویوں سے حدیث لینا اور اس کو بیان کرنا مناسب نہیں ہے۔
حضرت ابن عمرؓ حضرت عمر ؓ کے بارے میں فرماتے ہیں :
کان یأمرنا ان لا نأخذ الا عن ثقۃ۔(فتح الملھم ۳۴۹)
’’حضرت عمر ؓ ہمیں حکم فرماتے تھے کہ ہم حدیث نہ لیں مگر معتبر راوی سے‘‘۔
امام مالک ؒ فرماتے ہیں:
لیس کل الناس یکتب عنھم وان کان لھم فضل فی انفسھم، انما