اور یہ ان کی زبان کا کمال سمجھا جاتا ہے ،اسی طرح ایک مضمون نگار جب کسی موضوع پر قلم اٹھاتا ہے توصحیح و سقیم کی تمیز بھول جاتا ہے ، بزبان حال یہ کہہ رہا ہے کہ جتنی احادیث میرے علم میںہیں وہ سب صحیح ہیں ، ایسی حدیثیں بیان میں لاتے ہیں جو احادیث کی کتابوںمیں تو کیا ملتیں’’موضوعات ‘‘میں بھی ان کا سراغ نہیں ملتا، اور خود بھی حوالہ دینے سے قاصر رہتے ہیں ، ان احادیث میں ایسی بھی ہوتی ہیں جو خود دوسرے نصوص سے ٹکراتی ہیں ، یا بالکل عقل کے خلاف ہوتی ہیں ، ایک حدیث جو کسی صاحب نے بیان کی ہے ، ذرا غور سے پڑھئے:
جب کوئی کلمہ پڑھتا ہے تو قیامت ایک ہزار سال پیچھے ہٹ جاتی ہے ۔
ایک مرتبہ حضرت بلال ؓ کے علاوہ کسی دوسرے نے اذان دے دی پھر لوگ طلوع آفتاب کے منتظر تھے لیکن بہت دیر کے بعد بھی آفتاب طلوع نہیں ہوا، پھر غور کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ حضرت بلال نے اذان نہیں دی ، اس لئے سورج طلوع نہیں ہوا۔
حضرت بلال ؒ ایمان کی تلاش میں مکہ آئے تھے۔
ایک وہ بھی لمبی حدیث بیان کی جاتی ہے کہ جبرئیل ؑ حضورا کی خدمت میں حاضر ہوئے ، اور مختلف سوالات کئے ، کہ یا رسول اللہ آپ افضل ہیں یا میں ؟ آپ افضل ہیںیا عرش؟ آپ افضل ہیں یا بیت اللہ ؟ اسی طرح کے مختلف سوالات ہیں اور رسول اللہ ا کی طرف سے جوابات ، چونکہ سب کے بیان کرنے میں بہت زیادہ فرق ہوتا ہے اس لئے ضبط مشکل ہے ، اخیر میں سوال کرتے ہیں کہ آپ افضل ہیں یا دین ؟آپ ا نے فرمایا کہ دین افضل ہے ، یہ حدیث بھی اللہ جانے کہا ںسے لے کر بیان کی جاتی ہے، بعض تو ایسی تفصیل سے بیان کرتے ہیں کہ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حدیث غیر معتبر بلکہ جھوٹ ہے ؟