صوبے کو احمدی بنالیں تو کم ازکم ایک صوبہ تو ایسا ہو جائے گا۔ جس کو ہم اپنا صوبہ کہہ سکیں گے اور یہ بڑی آسانی کے ساتھ ہوسکتا ہے۔‘‘
اس عبارت میں جس ریاست مرزائیہ کے مشورے ہو رہے ہیں۔ اس کا نقشہ یہ بتایا جارہا ہے کہ اس کی ساری آبادی پر مرزائیت اس طرح چھا جائے کہ کوئی فرد غیر مرزائی نہ رہے۔ گویا مرزائی مسلمانوں کی اقلیت بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ جس گروہ کو مسلمانوں سے اتنی نفرت ہو کہ یہودیت اور عیسائیت کو بھی اسلام سے اتنی نفرت نہیں۔ اس کے حق میں اقلیت کا مطالبہ تو بہت ہی معمولی اور ہلکا مطالبہ ہے۔
کاش! حکومت حقائق کا جائزہ لے اور مسلمانوں کے جائز مطالبات پر پورا غور کرے۔
تیسری بات قابل توجہ یہ ہے کہ تحریک راست اقدام سے چند روز پہلے اخبار زمیندار میں چوہدری ظفر اﷲ کے چار خطوط شائع ہوئے تھے۔ جو نجی طور پر خلیفہ قادیان کو لکھ گئے۔ ان میں غیرممالک کے اندرمرزائیت کی تبلیغ کا ذکر تھا۔ یہ کہاں کی انصاف پرستی ہے کہ پاکستانی خزانہ سے روپیہ مسلمانوں کا صرف ہورہا ہے اور تبلیغ ونمائندگی مرزائیت کی ہورہی ہے۔ ایسی تخریبی کاروائیاں ہی تو مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کرتی ہیں۔ خصوصاً جب کہ ان کاروائیوں کا مرتکب وہ شخص ہو جس کو اسلامی حکومت کے نصف حصے کا مختار بنادیا گیا ہو۔
مسلمان آخر غیور قوم ہے۔ وہ ایک مرزائی کو سیاسی اعتبار سے اسی کلیدی آسامی دینا ہی برداشت نہیں کر سکتی۔ اس پر غیر ممالک اس میں تبلیغ مرزائیت کا اضافہ جلتی پر تیل ڈالنے کی مثال ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دوسری جماعتوں کی آپس میں تکفیر کو یہاں پیش کرنا اور یہ کہنا کہ مرزائیوں کی تکفیر کوئی نرالی نہیں۔ یہ قطعاً بے محل ہے۔ آخر یہ بھی تو سوچنا چاہئے کہ وہ کون سی چیز ہے جس نے آپس میں ایک دوسرے کی تکفیر کرنے والی تمام جماعتوں کو مرزائیت کے خلاف ایک سٹیج پر جمع کر دیا۔ وہ یہی تو ہے کہ مرزائی ایک نئی امت ہے۔ جس کی بابت ان کے نبی مرزاغلام احمد قادیانی فرماتے ہیں: ’’ان (یعنی مسلمانوں) کا اسلام اور ہے اور ہمارا اور۔ ان کا خدا اور ہے اور ہمارا اور۔ ہمارا حج اور ہے ۔ ان کا حج اور۔ اس طرح ان سے ہر بات میں اختلاف ہے۔‘‘ (الفضل ۲۱؍اگست ۱۹۱۷ئ)
کیوں نہ ہو
جب نبوت ہی الگ ہوگئی تو باقی سب کچھ خود بخود الگ ہوگیا اور جیسے یہودی عیسائی ہم سے ہر معاملہ میں الگ ہیں۔ ایسے ہی مرزائی ہیں۔ چنانچہ گذشتہ صفحات میں حسب ضرورت تفصیل ہوچکی ہے۔