دوم…
یہ کہ موجودہ تحریک خاص جماعت احرار کی اٹھائی ہوئی ہے۔ جس کو مذہبی رنگ دے کر عوام کے جذبات کو مشتعل کیا گیا۔ تاکہ اس ذریعہ سے اپنا سیاسی اقتدار قائم کریں۔ اسی لئے بعض دوسری جماعتیں بھی اس میں شامل ہوگئیں۔ جن کا مقصد یہی سیاسی اقتدار حاصل کرنا تھا۔
اس بیان کی تصدیق کے لئے روزنامہ احسان ۷؍جمادی الثانی ۱۳۷۲ھ، مطابق ۲۳؍مارچ ۱۹۵۳ء کا پرچہ ملاحظہ فرماویں۔ اس کے صفحہ اوّل پر زیر عنوان: ’’پنجاب میں راست اقدام کی تحریک ایک خطرناک سازش تھی۔‘‘
گورنر پنجاب کی نشری تقریر شائع ہوئی۔ جس کے مختصر الفاظ یہ ہیں: ’’گورنر پنجاب مسٹر اسماعیل ابراہیم چندریگر نے آج شام ریڈیو پاکستان لاہور سے اپنی ایک نشری تقریر میں کہا کہ بدامنی کی حالیہ تحریک بظاہر ختم نبوت کے تحفظ کے لئے شروع کی گئی۔ لیکن اس تحریک کے نام پر جو مطالبات پیش کئے گئے۔ وہ سراسر سیاسی تھے اور عوام کو فریب دینے کے لئے انہیں مذہبی رنگ دیا گیا۔ گورنر موصوف نے کہا یہ پروپیگنڈا بالکل غلط ہے کہ حکومت یا اس کے وزراء ختم نبوت کو نہیں مانتے۔ لیکن اس مسئلہ کو بدامنی کی دلیل بنانا اور ڈائرکٹ ایکشن کی ابتداء کرنا ایک خطرناک سازش تھی۔ جس کی بیشتر ذمہ داری جماعت احرار پر عائد ہوتی ہے۔
مسٹر اسماعیل چندریگر نے کہا۔ یہ وہ جماعت ہے جو شروع سے پاکستان کی دشمن رہی اور قیام پاکستان سے اب تک شاید ہی کوئی ایسا حربہ ہو جسے اس نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لئے استعمال نہ کیا ہو۔ یہاں تک کہ بانی پاکستان کی شخصیت پر بھی حملے کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ گورنر پنجاب نے کہا۔ اس تحریک کا اصل مقصد ملک میں انتشار اور بدامنی پھیلانا تھا۔ اس لئے غدارانہ سازش میں بعض اور جماعتیں بھی شامل ہوگئیں۔ جن کا مدعا ان ذرائع سے سیاسی اقتدار حاصل کرنا تھا۔ صوبہ کے سادہ لوح عوام کو غلط راستہ پر ڈالنے کے لئے ان کی آنکھوں پر مذہب کی پٹی باندھ دی گئی اور ان کے جذبات کو اشتعال انگیز تقریروں سے بھڑکایا گیا اور ہر ممکن کوشش کی گئی کہ حکومت کا نظام معطل ہو جائے اور ملک میں انتشار اور افراتفری پھیل جائے۔‘‘
اس تقریر میں حکومت اور وزراء کا عقیدہ ختم نبوت بتایا گیا اور اس کے ساتھ ہی مذکورہ الصدر دو نظریے قائم کئے گئے ہیں۔ یعنی ایک تو اس تحریک کو مسئلہ ختم نبوت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دوم یہ تحریک احرار کی پیداوار ہے۔ جس کا مقصد موجودہ نظام کو درہم برہم کر کے اپنا اقتدار قائم کرنا ہے۔