بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
دیباچہ
۱… چونکہ میرے بعض سعید الفطرت احباب کی عرصہ سے یہ تمنا تھی کہ ریاست انب کے اس قسم کے عبرت خیز اور سبق آموز واقعات کو حوالہ قلم کیا جاکر طبع کرایا جائے۔ جو کہ ریاست کے دور مرزائیت سے تعلق رکھتے ہوں۔ تاکہ واضح ہو جائے کہ اسلام سے مخالفت کا دور ہمیشہ کے لئے اسلام کی فتح وکامرانی کا پیش خیمہ ہوا کرتا ہے۔ لہٰذا اس خادم اسلام نے بجائے اس کے کہ اس کارخیر کے لئے احباب واقارب میں سے اور کسی کو مامور کر دیا جائے۔ یہ بہتر سمجھا کہ خود ہی ایک مختصر وقت نکال کر مرزائیت ریاست کی تاریخانہ اور تدریجی واقعات کو جو کہ وہ سب میرے لمحات حیات سے وابستہ اور میری اپنی ہی سرگذشت ہے۔ بنظر صحت واختصار مرتب کر کے طبع کرانے کی کوشش کرے۔ کیونکہ ’’صاحب البیت اعرف بما فی البیت‘‘
۲… ان حالات کے شروع کرنے سے پہلے یہ مناسب تصور کیاگیا کہ اپنے بعض ذاتی حالات اور بعضے اسلامی اکابر اور مشاہیر ریاست کے وہ واقعات بھی بطور اجمال سپرد قلم کئے جائیں جوکہ اس خادم اسلام کے عینی معلومات اور مشاہدات میں داخل ہیں۔ ریاست کے باقی ابتدائی کارناموں پر مفصل تبصرہ اس لئے نہیں کیاگیا کہ خدانخواستہ حدیث نبوی ’’کفیٰ بالمرء کذباً ان یحدث بکل ما سمع‘‘ کا مصداق نہ ہو جاؤں۔ کیونکہ مجھے ان کی روایات کے سلسلہ میں کوئی مؤثق اور معتمد ذرائع میسر نہیں ہوسکتے ہیں۔
۳… اگرچہ یہ امر نہایت معیوب اور ناموزوں ہے کہ میں خود اپنے اس قسم کے ذاتی اور منصبی حالات کے تذکرہ کو منظر عام پر لاؤں۔ جن میں کچھ قدر بھی خود ستائی اور ترفع کا شائبہ موجود ہو۔ لیکن جب میرے مطمح نظر اصل واقعات کی بلاکم وکاست تشریح وتدوین مطلوب ہے۔ اس لئے مجبوراً بیان کرنا پڑے گا۔ امید کہ قارئین کرام ہمچوں قسم حالات کو کسی تعلّی اور خود ستائی پر محمول نہ کریںگے۔
۴… افسوس کہ میری فرصت کے مختصر واقعات اس بحث کی جامعیت اور ہمہ گیری کے لئے مکتفی نہیں۔ کیونکہ میں اپنی مصروفیات (دارالقضاء اور دارالافتائ) میں اس