جو پہلے مذہب سے لازم آتا ہے۔ عدم اشتراک بہتر بلکہ صحیح ہے۔ بحرالعلوم مسلم الثبوت میں ہے۔ ’’وبل یکون فی الجملۃ لانتقال والابطال وما قیل بل ہذا لیست بعاطفۃ بل ابتدائیۃ وذہب الیہ ابن ہشام من النحاۃ واختارہ فی التحریر فممنوع لابد من اقامۃ دلیل علیہ بل قام الدلیل علی خلافہ لا نہ یوجب الاشتراک فی العطف والابتداء وعدم الاشتراک خیرکما مربل ھو حقیقۃ فی الاعراض‘‘
کلمہ بل اور معنی وضعی
بعض وقت یہ دھوکا لگ جاتا ہے کہ ایک لفظ ایک معنی میں استعمال کیا جاتا ہے اور انسان خیال کرلیتا ہے کہ یہ اس لفظ کا وضعی معنی ہے اور درحقیقت وہ وضعی اور اصلی معنی لفظ کا نہیںہوتا۔ لہٰذا وضع اور استعمال کا فرق لکھا جاتا ہے تاکہ کسی لفظ کے فہم میں کسی طرح کا خبط واقع نہ ہو۔ وضعی معنی وہ ہوتا ہے جو کہ واضع نے لفظ کے مقابل معین کیا ہوتا ہے اور مستعمل فیہ وہ ہوتا ہے کہ وضعی اور اصل معنی چھوڑ کر کسی دوسرے مجازی معنی میں بوجہ کسی مناسبت کے استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ کہا جائے کہ میں نے انسان کو دیکھا تو مراد اس سے وہی زید، بکر اور خالد وغیرہ افراد وضعی ہوںگے اور اگر کہا جائے کہ میں نے شیر کو دیکھا ہے اور مراد وہی انسان ہے تو ظاہر ہے کہ شیر کا یہ معنی اصلی اور وضعی نہیں ہے۔ کیونکہ اصلی معنی تو اس کا وہ جانور دم دار پھاڑ کھانے والا ہے۔ پس شیر سے مراد انسان رکھنا اور اس میں استعمال کرنا مجازی معنی میں بوجہ کسی مناسبت کے استعمال کرنا ہے۔ بہرصورت شیر کا اصل معنی، جانور پھاڑ کھانے والا ہے۔ پس شیر سے مراد انسان رکھنا فقط مستعمل فیہ ہے۔ نہ کہ وضعی معنی اور جیسے توفی کا لفظ اس کا وضعی معنی فقط کسی شے کا پورا لے لینا اگر پورا لے لینا روح سے ہو یا غیرروح سے۔ اگر روح سے ہو تو پھر مع الامساک ہے۔ یا مع الارسال۔ یہ سب کے سب معنی وضعی کے افراد اور معانی استعمالیہ ہیں۔ نہ کہ معنی وضعی اور پھر ظاہر ہے کہ جب استعمال مجازی معنی میں لفظ کو محض ایک گونہ مناسبت استعمال کیا گیا ہے تو درحقیقت یہ لفظ کا معنی ہی نہیں۔معنی وضعی اور نعت وتفسیر
یہ امر بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ لغت اور تفسیر لفظ بالخصوص لفظ مشق کا معنی مستعمل فیہ ذکر کرتے ہیں اور وضعی کو چھوڑ دیتے ہیں۔ مثلاً اﷲ جس کا معنی وضعی معبود مطلق ہے۔ واجب ہو یا ممکن، آدمی ہو یا جن، کواکب ہوں یا ملائکہ۔ حالانکہ لغت اور تفسیر میں اکثر جگہ الٰہ کی تفسیر بتوں سے