ملفوظات حکیم الامت جلد 18 - یونیکوڈ |
|
ڈاڑھی اور اونچے پاجامہ والے سب ایسے ہی ہوتے تھے ہیں ۔ خصوصا علماء عام طورسے بدنام ہیں میں تو ایسے لوگوں سے کہا کرتا ہوں کہ تم نے علماء دیکھے کہاں ہیں ۔ آؤ تمہیں علماء دکھاؤں ۔ میرے ساتھ سفر کرو۔ 19 رجب المرجب 1335 ھ بروز جمعہ (ملفوظ 623) احکام تشریعیہ کی حکمتیں پوچھنا بہت بے ادبی ہے : جمعہ کی دو اذانوں کے متعلق ذکر ہورہا تھا ۔ ایک صاحب نے پوچھا کہ ان میں اصل کونسی ہے فرمایا کہ دونوں اصل ہیں ایک بھی زائد نہیں جس کو ترک کیا جاسکے ۔ البتہ جواب پہلی اذان ہے وہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانہ میں بالاجماع مقرر ہوئی ہے لیکن ان کو زائد کہنے کا تو یہ حاصل ہے کہ یہ فضول ہے تو کیا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور صحابہ پر گمراہی کا خیال کیا جاویگا ۔ پھر انہوں نے یہ عرض کیا کہ میرا مقصود دریافت کرنے سے یہ ہے ۔ کہ پھر دوسری اذان کی کیا ضرورت ہے فرمایا کہ آپ اس کا جواب دیدیجئے کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو کیوں پیدا کیا ۔ اس کی کیا ضرورت ہے آپ اس کی حکمتیں بتادیں ۔ میں اذان و نماز اور سارے احکام کی حکمتیں بتادوں گا ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اعتر اض مقصود نہیں ہے ۔ سوال عن الحکمت مقصود ہے ۔ مثلا خدا تعالٰٰی نے انسان کو اس لیے ادب کے خلاف ہیں اس وجہ سے مجھ کو پریشانی ہوئی اور چونکہ بے ادبی کا سوال تھا اس وجہ سے میں نے سختی کے ساتھ آپ سے وہ سوال کیا اگر ایسا نہ کرتا تو آپ کو اپنی بے ادبی کا حال بھی نہ معلوم ہوتا ۔ میرے سوال کا حاصل یہ ہے کہ جب احکام تکوینیہ کی حکمتیں نہیں پوچھتے تو احکام تشریعیہ کی حکمتیں کیوں پوچھتی جاتی ہیں وہ بھی خدا ہی کا کیا ہوا ہے پھر اس کی کیا وجہ کہ ایک حکمت نہیں پوچھی باغی تو یہ سوال کرسکتا ہے مطیع وفرمانبرداری کوحق ایسے سوال کرنے کا نہیں ہے یہ وسوسہ ہے اس کو قلب سے نکالنا چاہیے ۔ یہ ملکی بات نہیں جس کی عظمت قلب کے اندر ہوتی ہے اس کی تجویزوں پر سوال نہیں کیے جاسکتے ۔ مجھ سے اس جلسہ میں کسی نے یہ سوال نہیں کیا کہ اس طرح کی ٹوپی کیوں پہنی کیونکہ میری عظمت ہے افسوس خدا کی اتنی عظمت بھی کتنے ڈوب جانے کی بات ہے کہ خدا کی اتنی عظمت بھی نہیں۔ جتنی ایک ناپاک مخلوق کی ۔ میرا تو رونگٹا کھڑا ہوگیا ۔ کسی انگریز سے تو قانون کی