ملفوظات حکیم الامت جلد 18 - یونیکوڈ |
|
(ملفوظ 75 ) حضرت حاجی صاحب رحمت اللہ علیہ کی قلمبند کرامتوں کا مسودہ ضائع ہو گیا : فرمایا کہ میں نے حضرت مولانا گنگوی رحمت اللہ علیھ سے عرض کیا کہ حضرت حاجی صاحب رحمت اللہ علیھ کی کچھ کرامتیں لکھنے کو میرا دل چاہتا ہے اگر کچھ واقعات بتلا دیجئے تو بہتر ہے حضرت گنگوی رحمت اللہ علیھ ہی نے فرمایا کہ بھائی ہم نے تو حضرت حاجی صاحب رحمت اللہ علیھ کو کبھی اس نظر سے دیکھا نہیں اگر تمہارے دل چاہتا ہے تو خیر اگر کوئی بات یاد آجائے گی تو کہہ دوں گا پھر ایک مرتبہ مجھے آوازدی اور فرمایا کہ بھائی اس وقت ایک بات یاد آئی ہے لکھ لو چنانچہ میں نے اس کو لکھ لیا پھر فرمایا کہ اور یاد آئی ہے اس کو بھی لکھ لیا گیا چند روز کے بعد حضرت گنگوی رحمت اللہ علیھ نے دریافت فرمایا کہ بھائی اب کتنی ہوگئیں میں نے عرض کیا کہ حضرت تئیس ہوگئی ہیں ۔ فرمایا کہ اگر تیس ہو جائیں تو اچھا ہے جب تیس پوری ہوگئیں تو فرمایا کہ بس بھائی بہت کافی ہے پھر حضرت والا صاحب ملفوظ نے فرمایا کہ مجھ سے وہ کرامتیں تحریر تھیں مولوی محمد یحیٰے لے گئے تھے انہوں نے وہ کاغز ضائع کردیئے مجھے بہت ہی افسوس ہوا کہ ایسے راوی کہاں ملیں گے (ملفوظ 76) حضرت حاجی صاحب اپنے زمانے کے سیداحمد شہید تھے : فرمایا کہ حضرت حاجی صاحب نے مولانا شاہ صاحب کی نسبت فرمایا کہ میری موجودگی ہندوستان کے زمانہ میں تو ان کی چنداں شہرت نہ تھی پھر حضرت والا نے فرمایا کہ انداز سے ہوتا تھا کہ حضرت حاجی صاحب ان کو بڑے لوگوں میں نہیں سمجھتے تھے البتہ حضرت حاجی صاحب کو ان سے محبت تھی پھر فرمایا کہ شاہ صاحب کی طرف علماء کا بلکل رجوع نہ تھا بلکہ دنیادار اور امرا کا کثرت سے رجوع تھا ان پر استغراق کی حالت رہتی تھی تعلیم و تلقین بھی کم فرماتے تھے اور حضرت حاجی صاحب کی جانب علماء وصلحاء اور غرباء کا رجوع تھا حضرت حاجی صاحب اپنے زمانہ میں مثل حضرت شاہ سیداحمد صاحب کے تھے حضرت حاجی صاحب سے فیوض وبرکات بہت پھیلے بڑے بڑے علماء آپ کے خادم اور سچے معتقد اور کمال کے دل سے قائل تھے ۔ (ملفوظ 77) حضرت حاجی صاحب کی سادگی : فرمایا کہ حضرت حاجی صاحب سے ایسے بڑے بڑے علماء مستفید ہوئے کہ اگر وہ