ملفوظات حکیم الامت جلد 18 - یونیکوڈ |
|
کہ بری بات کا الزام لگانے سے آتا ۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ میں بہت پریشان رہا کرتا ہوں وساوس آتے ہیں میں نے کہا کہ اختیاری یا غیر اختیاری انہوں نے کہا کہ غیر اختیاری ۔ میں نے کہا کہ پھر پریشانی کی کیا بات ہے کہھبی کچھ کہتے تھے کہبھی کچھ کہتے تھے یہ چاہتے تھے کہ مجھ سے سوال نہ کیا جائے یہ خود ہی سب قسمیں اور ان کی تفصیل بتلا دیں ۔ پھر انہوں نے دوسرے دن عرض کیا کہ میری غلطی تھی اب سمجھ میں آیا کہ غیر اختیاری وساوس مضر نہیں ۔ میں نے کہا کہ اگر میں بتلا دیتا تو تمہیں اتنی بصیرت سے کہبھی معلوم نہ ہوتا ۔ پھر فرمایا کہ پنجاب کے ایک اور صاحب نے جوکہ خفا ہوکر چلے گئے تھے جب پھر آنے کی درخواست کی تو میں نے لکھا کہ اگر ہر طرح کی ذلت کے لیے آمادہ ہو تو آؤ پھر فرمایا کہ لوگ تکبر کے ساتھ اللہ تعالٰی کا رستہ پوچھنا چاہتے ہیں ۔ بڑائی کا گمان اور طلب کس طرح جمع ہوسکتی ہے انبیاء علہیم السلام نے بجز تواضع کے اور کچھ اختیار نہ کیا طالبین کو کس طرح مناسب ہوسکتا ہے تکبر کرنا کفر تکبر ہی سے نکلا ہے ۔ شیطان بھی تکبر ہی کیوجہ سے کافر ہوا اور سردران قریش وغیرہ سب تکبر ہی سے کافر ہوئے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے اتباع سے عار آئی ۔ ( ملفوظ 520 ) متکلم کو اپنی بات سمجھانا اس کے اپنے ذمہ ہے : ایک صاحب نے انگریزی کی رقم میں اپنی تنخواہ کی مقدار لکھی تھی حضرت نے اس کے جواب میں تحریر فرمادیا کہ یہ انگریزی کی رقم ہم سے نہیں پڑھی گئی اور فرمایا کہ بس یہ بد اخلاقی سمجھی جائے گی کہ کسی سے پڑھوالی ہوتی ۔ لیکن اگر میں نہ لکھوں تو ان کو اپنی حماقت کیسے معلوم ہوگی جب یہ ہم سے خطاب کررہے ہیں تو ہمیں سمجھانا ان کے ذمہ ہے ہم کیوں پوچھتے پھریں ساری دنیا سے پھر فرمایا کہ میرا پہلے ہی سے قاعدہ تھا کہ طالب علم سے مقدمات پوچھ لیتا تھا بس وہ مقدمہ خود حل ہوجاتا تھا لوگ بجائے اس کے کہ میرے اس طرز سے خوش ہوں اور برا مانتے ہیں اور دق کرتے ہیں ۔