ملفوظات حکیم الامت جلد 18 - یونیکوڈ |
|
21 رجب المرجب 1335ھ بروز یک شنبہ ( ملفوظ 642 ) پہلے عوام دنیا دار بھی بے تکلف ہوتے تھے : فرمایا کہ میں ایک مرتبہ گلاو ٹھی جاتے ہوئے باپو ڑااترا ۔ وہاں کے سب انسپکٹر صاحب کو ایک سپاہی نے اطلاع کردی ۔ انہوں نے اپنے مکان پر ٹھہرایا اور شبیر علی کو پانچ روپیہ دینے لگے ۔ انہوں نے کہا میں بے اجازت نہیں لے سکتا ۔ اس پر انہوں نے مجھ سے کہا کہ اجازت دے دیجئے ۔ میں نے کہا آپ ان کے باپ کو دیتے ہیں یا مجھے یا ان کو ۔ اگر آپ ان کو دیتے ہیں تو ان کے کام اس لیے نہیں آسکتا ۔ کہ ان کا ناں ونفقہ ان کے والد کے ذمہ ہے بس اب یہ دینا ان کے کام تو نہ آیا اور اگر ان کے والد کو ہوا ان کا نفع پانچ روپیہ کا ہوجاؤے گا کہ پانچ روپیہ خرچ کے بچ جاویں گے ۔ غرض ان کے کام تو نہ آیا اور اگر ان کے والد کو دینا ہے تو ان کو خبر بھی نہیں تو جو مقصود ہے ہدیہ کا یعنی باہمی تعلقات کا بڑھنا وہ حاصل نہ ہوا اور اگر مجھ کو دینا ہے تو میرے ہوتے ہوئے ان کے ہاتھ میں دینا کیا معنی اب آپ یہ کہیے کہ آپ کا مقصود کس کو دینا ہے تب انہوں نے بے تکلف کہہ دیا کہ مجھے تو آپ کو دینا مقصود ہے میں نے کہا میرے ہاتھ میں دو چنانچہ انہوں نے مجھے دیئے میں نے لے لیے بس بے تکلف بات یہ تھی ۔ پہلے زمانے میں عوام دنیا دار بھی بے تکلف ہوتے تھے ۔ والد صاحب نے مولانا محمد یعقوب صاحب کی خدمت میں چائے بھیجی اور خط میں لکھا کہ کبھی کبھی اس میں اشرف علی کو بھی شریک کرلیا کیجئے پھر آخر میں لکھا کہ اس ک شریک کرنا مناسب نہیں کیونکہ وہ طالب علمی کرنے گیا ہے تنعم میں پڑنا اس کے لیے مناسب نہیں ۔ مولانا نے مجھے بلایا کہ بھائی تمہارے والد صاحب نے وہ حکم لکھے ہیں اب کون سے پر علم کروں ۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت آخر کا حکم اول کے حکم کو منسوخ کردیتا ہے لہزاپہلے یہ عمل نہ کیجئے ۔ دوسرے پر عمل کیجئے ۔ پھر فرمایا کہ آج کل بعض ہدیہ پیش کرتے وقت عجیب عجیب باتیں سوچتے ہیں کہ اتنا طعام میں صرف ہوا ہوگا اور اتنا حجرہ کا کرایا ہوا ۔ اتنی خادم کی تنخواہ ۔ ( ملفوظ 643 ) جو چیز جہاں سے لے وہیں رکھے : ایک صاحب نے حضرت والا کی چھتری جہاں سے لی تھی بجائے اس کے دوسری جگہ رکھ دی فرمایا کہ یہ بھی آداب میں سے ہے کہ جو چیز جہاں سے لے وہیں رکھے اور صرف